Khilafat e Usmania History In Urdu – سلطنت عثمانیہ کی مکمل تاریخ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ: پیارے اسلامی بھائیوں آپ کیسے ہو؟ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے، اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھیں۔ دوستوں کیا آپ سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ( saltanat e usmania history) پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ صحیح جگہ پر ہیں، آپ یہاں سے خلافت عثمانیہ کی مکمل تاریخ (khilafat e usmania history) مختصر وقت میں پڑھ کر مستفید ہوسکیں گے۔ میرے پیارے بھائی اب آپ نیچے لکھے ہوئے خلافتِ عثمانیہ کا پس منظر (khilafat e usmania ki tareekh) پڑھنا شروع کیجیے، نیز پڑھنے کے بعد اپنے متعلقین کے ساتھ بھی شیر کیجے گا تاکہ اُنہیں بھی تاریخ اسلام (tareekh e islam) کو جاننے اور سمجھنے کا موقع مل سکے۔
خلافت عثمانیہ کا پس منظر
پیارے اسلامی بھیائیوں سلطنت عثمانیہ کا نام کسی نسل یا قوم سے نہیں بلکہ اس کے پہلے حکمران سلطان عثمان غازی کے نام سے منسوب ہے، عثمان کے نام پر ہی اس کا نام یہ ہے، عثمان غازی کے والد کا نام ارطغرل غازی تھا، اس وقت ترک قبیلوں کی شکل میں رہتے تھے، یہ تمام قبیلے خانہ بدوش تھے جہاں سر سبز علاقہ اور پانی نظر آیا، وہیں خیمے گاڑ کر ڈیرہ ڈال لیا،ان قبیلوں میں ایک قبیلے کا نام قائی قبیلہ تھا،
قائی قبیلہ باقی قبیلوں سے کچھ بڑا اور طاقتور تھا، سلیمان شاہ اس قبیلے کا سردار تھا، یہ نہایت جنگجو قبیلہ تھا، سلیمان شاہ اور اس کے قبیلے کے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد اسلام کی اشاعت تھی، کیونکہ یہ وہ وقت تھا کہ مسلمان ہر جگہ سے کمزوری کا شکار تھے، منگول اپنا سر اٹھا رہے تھے، سلجوقی سلطنت اپنے زوال کے قریب تھی، ان حالات میں ضروری تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کو بڑھایا جائے،
سلیمان شاہ کا انتقال ہو گیا، اس کے تین بیٹے تھے، دوسرا بیٹا ارطغرل اپنے والد کا جانشین مقرر ہوا، ارطغرل غازی بہادر، نڈر، جنگجو شخص تھا، جو اپنے قبیلے کا دفاع کرنا خوب جانتا تھا لیکن وقت وہ آگیا کہ منگول ہر طرف تباہی پھیلا رہے تھے مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا، چنگیز خان کی فوجوں نے خوارزم شاہ سلطنت کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا مسلمان منگولوں کے آگے لگ کر بھاگ رہے تھے ، اس صورت حال میں ارطغرل منگولوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ،
وہ اپنے قبیلے کو لے کر سلجوقی سلطنت کی طرف رواں ہوا ، اس کے ساتھ تقریبا چار سو کے لگ بھگ خاندان تھے، راستے میں اس نے دیکھا کہ دوفوجیں آپس میں لڑ رہی ہیں۔ اس نے سوچا کہ کسی ایک کا ساتھ دینا چاہئے، ایسے یہ نہیں معلوم تھا کہ و لشکر کس کس کے ہیں، کچھ سوچ کر اس نے جو فوج ہار رہی تھی اس کا ساتھ دیا اور اپنے ان تھوڑے سپاہیوں کے ساتھ مخالف فوج پر اچانک اور بہت تیز حملہ کروایا، وہ فوج ڈرگئی اور سمجھی کہ ان کو کہیں سے مدد مل گئی ہے، اور وہ فوج جیتتے جیتے ہار مان گئی ، بعد میں معلوم ہوا کہ جس فوج کا ساتھ دیا، یہ سلجوقی سلطان علاؤ الدین کی فوج تھی، مخالف فوج کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض کے نزدیک وہ بازنطینی عیسائی فوج تھی اور اکثر کے مطابق وہ تاتاری تھے،
بہر حال سلطان ان کی بہادری سے بہت خوش ہوا اور ارطغرل کے قبیلے کو اپنی سلطنت میں اناضول کے قریب سقاریہ کے علاقے میں ایک جاگیر عطا کی اور یہ قبیلہ وہیں آباد ہو گیا، سلطان نے ان کو اجازت دی کہ سرحد کے ساتھ ساتھ علاقوں کو فتح کریں اور ان کو سلطنت میں شامل کریں، یہ علاقہ بازنطینی عیسائی سلطنت کے بالکل ساتھ جڑا ہوا تھا، ارطغرل نے کچھ ہی عرصے میں اپنی شجاعت و بہادری کا سکہ بٹھا دیا، ان فتوحات کا نتیجہ یہ ہوا کہ باقی بہت سے ترک قبائل بھی ارطغرل کے ساتھ مل گئے اور اسے اپنا سر دار تسلیم کر لیا،
ارطغرل ، سلطان علاؤالدین کے نائب کے طور پر لڑ تا رہا اور اس کی طاقت میں دن بدن اضافہ ہوتارہا، ارطغرل نے بازنطینی سلطنت کے ایک بڑے متحدہ لشکر کو شکست دی، مدتوں اس جاگیر کو حاصل کرنے کے لئے مسلسل جنگیں لڑتے رہے۔ 1281ء میں 90 برس کی عمر میں ارطغرل کا انتقال ہو گیا، اس کے جانشین اس کا بیٹا عثمان غازی تھا، عثمان اپنے والد کی طرح پکا مسلمان، بہادر اور حوصلہ مند تھا، اس نے بھی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا ، ادھر سلطان علاء الدین سلجوقی ایک جنگ میں شہید ہوئے ،اس کے بعد اس کا بیٹا غیاث الدین بھی تاتاریوں کے ہاتھوں مارا گیا، 1299ء میں سلجوق سلطنت بالکل ختم ہوگئی،
عثمان غازی نے اپنے تمام مفتوحہ علاقوں میں اپنی خود مختار حکومت کا اعلان کر دیا، یوں سلجوقی سلطنت سے علیحدہ عثمانی سلطنت قائم ہوئی، سلجوقوں کے لئے یہ بات تشویش کا باعث ہوتی لیکن وہ اندرونی جھگڑوں کی وجہ سے مکمل زوال پذیر ہو چکے تھے، امیر عثمان غازی نے بہت سے شہروں اور قلعوں کو فتح کیا اور ینی شہر جو کہ برصہ کا ایک ضلع تھا، کو اپنا دارالحکومت بنایا، سلطان عثمان کو سلطنت ملنا اور ایک مضبوط اسلامی سلطنت کا قائم ہونا، اللہ کی مرضی تھی ، اس سلطنت کے قائم ہونے کے بعد مسلمان متحد ہونا شروع ہوئے،
برصہ کی فتح کے بعد سلطان عثمان بیمار ہوئے اور 1323ء کو وفات پائی، مرنے سے پہلے اپنے بیٹے اورخان کو ایک طویل نصیحت کی۔ اورخان سلطان بنا اور اپنے باپ کی پالیسی کو جاری رکھا، جب سلطان عثمان کا انتقال ہوا تو سلطنت کا رقبہ 16,000 مربع کلو میٹر تھا، ڈیڑھ سوسال کے اندر اندر یہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت بن گئی، سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر کے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی پوری کر دی اور اپنے بہترین ہونے کا ثبوت دیا،
سلطنت عثمانیہ کے نویں سلطان ، سلطان سلیم اول نے مصر میں موجود عباسی خلافت ختم کر کے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا، یوں خلافت بھی ان کی ہوئی اور سلطان سلیم اول سلطنت عثمانیہ کے پہلے خلیفہ بنے ، یہ سلطنت 623 سال قائم رہی اور 1922ء میں ختم ہوئی۔ مفتی شکیل منصور صاحب القاسمی صدر مفتی سورینام جنوب امریکہ ڈاکٹر محمد عزیر صاحب کی کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں: ” ایک خراسانی الاصل ترک قبیلہ ترکان غز” سلیمان خان کی سرداری میں ہجرت کر کے آرمینا“ میں آباد ہوا سلجوقی سلطنت کے حکمراں علاء الدین کیقباد پر اس کے پایہ تخت قونیہ میں سن 621 ہجری میں چنگیز خان نے فوج کشی کی،
سلیمان خان نے اپنے جانباز بیٹے ارطغرل” کی سپہ سالاری میں چارسو چوالیس 444 جنگجووں کو مدد کے لئے بھیجا، ارطغرل نے تاتاریوں کو عبرتناک شکست دی، اس پر خوش ہوکے سلجوقی سلطان نے ارطغرل کو انتہائی زرخیز علاقہ سغوت ” جاگیر میں دیا،علاء الدین کیقباد کی وفات کے بعد اس کے بیٹے غیاث الدین کیجز وسلجوقی سن 634 ہجری میں تخت نشیں ہوا، سن 687 ہجری میں ارطغرل کے گھر ایک لڑکا تولد ہوا جسکا نام عثمان خان رکھا گیا، سلطان غیاث الدین نے اپنی بیٹی کی شادی بھی عثمان خان سے کر دی ،
تاتاریوں کے حملے میں غیاث الدین جب مقتول ہو گیا تو عثمان خان سن 1299ء میں قونیہ پہ مسند نشیں ہوگیا، اور یہیں سے سلطنت عثمانیہ کے نام سے ایک خود مختار سلطنت کی بنیاد پڑگئی، اور اسرائیل بن سلجوق کی اولاد کی جو سلطنت 470 ہجری میں قائم کی گئی تھی اس کا چراغ گل ہو گیا۔ خلافت راشدہ ، خلافت امویہ اور خلافت عباسیہ کے بعد اسلامی تاریخ کی چوتھی بڑی خلافت عثمانیہ تھی، جو تقریبا 2 کروڑ مربع کلومیٹر پر محیط تھی،
سلطنت عثمانیہ سن 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں ( 16 ویں 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحد میں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قزوین اور پیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی ۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگزار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔ سلاطین عثمانی کی مجموعی تعداد 37 ہے،
عثمانی سلطنت کے تیسرے سلطان مراداول نے یورپ میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے، اور ساتویں عثمانی سلطان، محمد فاتح نے قسطنطنیہ (شہر قیصر ) فتح کر کے گیارہ سو سال سے قائم بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر کے حدیث رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم میں فتح قسطنطنیہ کے حوالے سے وارد ہونے والی بشارت کا مصداق بنے، سلطنت عثمانیہ کا دائرہ دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا تھا، دارالسلطنت قسطنطنیہ (استنبول) تھا، مصر اردن، عراق، شام، اور حجاز مقدس کے علاوہ اکثر عربی علاقے خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں تھے، فلسطین بھی اسی کی ریاست تھی ، شہر بیت المقدس بھی اسی کے شہروں میں تھا۔