قربانی کا حکم | قربانی کی اہمیت و فضیلت

 قربانی کا حکم

قربانی کا حکم: قربانی کے حکم کے بارے میں حضرات ائمہ کرام رحمت اللہ علیہم کے دو قول ملتے ہیں

(۱) واجب: یہ حضرات احناف اور مالکیہ رحمت اللہ علیہم کا قول ہے ، جو قربانی کے وجوب کے قائل ہیں۔

(۲) سنت مؤکدہ: امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمت اللہ علیہما قربانی کو سنت مؤکدہ کہتے ہیں۔

قربانی کا معنی اور اس کی صورتیں

قربانی کا معنی: قربانی کا لفظ  جس کا مادہ  قربان ہے، اگر چہ جانوروں کے ذبیحہ کے لئے استعمال ہو تا ہے ، لیکن باعتبار لغت یہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس کو اللہ تعالی کے تقرب یعنی قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا جاۓ۔

 بنیادی طور پر قربانی تین چیزوں کی ہوتی ہے: (۱) جان کی قربانی۔ (۲) مال کی قربانی۔ (۳) خواہشات کی قربانی۔نماز ، روزہ اور دیگر جسمانی عبادات جان کی قربانی سے تعلق رکھتی ہیں ۔

زکوۃ ، صدقہ وخیرات اور دیگر مالی عبادات ( جس میں قربانی بھی شامل ہے مال کی قربانی کہلاتی ہیں ،۔

جبکہ خواہشات کی قربانی میں تمام بدنی ومالی عبادتیں بلکہ ایک مسلمان کی شروع سے لے کر آخرتک کی پوری زندگی آجاتی ہے ، اس لئے کہ خواہشات کی قربانی کے بغیر کسی عبادت کا سر انجام دینا یا کسی گناہ و نافرمانی سے بچنا ممکن نہیں ، یہی وجہ ہے کہ قربانی کی یہ قسم بقیہ دونوں قسموں سے افضل قرار پاتی ہے ، بلکہ دیکھا جائے تو پہلی دونوں قسمیں دراصل اس تیسری قسم ہی کی ایک شکل ہیں ۔

جانوروں کی قربانی میں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یہ در اصل خواہشات کو قربان کرنے کی ایک ٹرینگ ہے ، اس سے بندوں کو یہ سبق حاصل کرنا چاہیے کہ وہ جانور کی قربانی کے ساتھ ساتھ اپنی پوری زندگی میں حرام خواہشات کو قربان کرناسیکھیں۔

قربانی کی اہمیت

قربانی کی اہمیت: قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے ، زمانہ جاہلیت میں بھی اس کو عبادت سمجھا جاتا تھا، لیکن اس وقت بتوں کے نام پر قربانی کی جاتی تھی ، اسلام نے آکر اس کو صرف ایک خدائے وحدہ لاشریک کے لئے خاص کر دیا اور اس کے علاوہ کسی اور کے نام پر ہونے والے ذبیجوں کو مردود اور حرام قرار دیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد دس سال تک وہاں قیام فرمایا  اور مسلسل پابندی کے ساتھ ہر سال بلاناغہ قربانی کا اہتمام کیا۔(ترمذی:1507)

قربانی کے فضیلت

قربانی کے فضیلت:حضرت عائشہ صدیقہ راضی اللہ تعالی عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ ارشاد نقل فرماتی ہیں: "ما عمِل أدميٌّ مِن عَمل يومَ النحرِ أَحبُّ إلى الله مِن إِهراق الدَّمِ، إنّه لَيأتي يومَ القيامةِ بِقُرُونِها وَأشعارِها وأَظلافِها، وأَنَّ الدَّمَ لَيقَعُ من الله بِمكانٍ قبلَ أنْ يَقـعَ مـِن الأرضِ، فَطِيبُوا بِها نَفسًا

 عید الاضحی کے دن انسان کا کوئی عمل اللہ تعالی کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیگا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے ، پس تم لوگ خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی: 1493) 

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا کہ یہ قربانیاں کیا چیز ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "سُنَّةُ أَبيكُمْ إِبراهِيمَ“ یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔

قربانی کے فضائل کا خلاصہ 

 (۱) اللہ تعالی کا محبوب ترین عمل ہے۔

 (۲) قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کی رضاء اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔

 (۳) قربانی کر نا حضرت ابراہیم السلام کی سنت ہے ۔ 

(۴) جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے ۔ 

(۵) جانور اگر اون والا بھی ہو تو ہر اون کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے۔ 

 (۶) جانور کے خون کے ہر قطرے کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے۔

 (۷) خون کا پہلا قطرہ گرنے سے پہلے ہی قربانی کرنے والے کی مغفرت کر دی جاتی ہے ۔ 

(۸) قربانی کا جانور قیامت کے دن پل صراط پر سواری ہو گا۔ 

 (۹) قربانی کا جانور اللہ تعالی کے نزدیک مال کا سب سے محبوب ترین مصرف ہے ۔

(۱۰) خوشدلی سے ثواب کی نیت سے قربانی کرنے والے کےلیے جانور جہنم سے رکاوٹ ہو گا۔

 (۱۱) جانور کا خون ، گوبر اور اون سب کچھ نیکیاں بن کر میزان عمل میں حاضر ہو گا۔ 

قربانی نہ کرنے پر وعید

قربانی نہ کرنے کی وعید:حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ، فَلاَ يَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا‘‘ جو شخص تم میں سے ( قربانی کی وسعت رکھتے ہوئے بھی قربانی نہ کرے تو اسے چاہیئے کہ ہمارے عید گاہ کے قریب بھی نہ آۓ۔ (مسند احمد : 8273)

 

2 thoughts on “قربانی کا حکم | قربانی کی اہمیت و فضیلت”

Leave a Comment