نئے سال کا جشن اور مسلم معاشرہ، ولولہ انگیز تقریر
محترم قارئین میں ہوں مولانا اسعد، ہماری ویب سائٹ پر آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ پیارے دوستوں اس پوسٹ میں(happy new year 2024) نئے سال کا جشن اور مسلم معاشرہ پر ولولہ انگیز تقریر بہت ہی دلچسپ انداز میں لکھا گیا ہے، انشاء اللہ آپ کو پڑھ کر ضرور پسند آئیگا۔
فقد قَالَ رَسُول اللَّه صلی اللہ علیہ وسلم :اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ
ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو۔ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے۔ اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے۔ اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے۔ اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
محترم سامعین کرام شمسی کیلنڈر کے لحاظ سے ماہ جنوری کی شروعات ہونے کو ہے، یعنی سال 2024 کے شروع ہونے میں کچھ ہی دن یا چند گھنٹے باقی ہے۔ اس موقع پر نوجوان طبقہ کچھ زیادہ ہی پرجوش نظر آتا ہے۔ کہیں کارڈز کے تبادلے کئے جاتے ہیں، کہیں فون وغیرہ کے ذریعہ مبارک بادیاں دی جاتی ہیں ، کہیں نئے سال کے موقع پر پر تکلف جشن منایا جاتا ہے۔فی الحال غیر مسلم بڑے زور و شور سے اس کو منانے کی تیاری کررہے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے کے اکثر نوجوان ان غیر مسلموں سے پیچھے نہیں ہے۔اب سوچیں ذہن کو نوچ رہی ہیں کہ غیر مسلموں اورمسلمانوں میں کیا فرق ہے جو یہ نیا سال منانے کے لیے مسلمان ہونے کے تقاضے بھی بھول گئے۔
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے سال کا جشن منایا؟ کیا صحابہ اکرام نے آپس میں ایک دوسرے کونئے سال کی مبارک باد دی؟کیا تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں اس رسم کو منایاگیا؟ کیا دیگر مسلمان حکمرانوں نے اس کے جشن کی محفلوں میں شرکت کی؟ حالانکہ اس وقت تک اسلام ایران، عراق، مصر، شام اور مشرقِ وسطیٰ کے اہم ممالک تک پھیل چکا تھا۔
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہر عقل مند شخص نفی میں دے گا۔ پھر آج کیوں مسلمان اس کام کو انجام دے رہے ہیں؟آخر یہ کس نے ایجاد کیا؟ کو ن سی قوم نئے سال کا جشن مناتی ہے؟ کیوں مناتی ہے؟
کیا کبھی کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کے تہوار اس جوش و جذبہ سے مناتے دیکھا گیا ہے؟نئے سال کی آمد آمد ہے اور ہرکوئی جشن کا ماحول بنا رہا ہے۔ساری دنیا میں لوگ اس موقعے کو اپنے اپنے انداز سے منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
مہینے بھر کی کمائی کو دوسرے شہروں میں جا کر اڑانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔۔ پھر دعوتیں اڑائی جاتی ہیں، رقص و سرور کی محفلیں سجتی ہیں جہاں شراب شباب کباب جمع کیے جاتے ہیں ، مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے، کہیں دید کے متلاشی من کی مراد پاتے ہیں تو کہیں ایس ایم ایس سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے۔
بہر حال ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے نئے سال کو خوش آمدید ضرور کہتا ہے۔ اس تیاری میں اربوں کی فضول خرچی ہوگی۔اگر ان فضول اخراجات کوجوڑا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ امت کا جان مال وقت بڑی مقدار میں کہاں صرف ہورہا ہے۔۔!!اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر انہیں یہ کیوں معلوم نہیں کہ مسلمانوں کا دن تو سورج غروب اور رات کے آغاز سے شروع ہوتا ہے … یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ہلال کی رویت ہوتی ہے۔ کیا یہ لوگ اسی حساب کتاب سے رمضان المبارک، عیدالفطر، عید الاضحیٰ نہیں مناتے؟ جی ہاں مناتے ہیں تو پھر انہیں آج یہ کیا ہو گیا ہے کہ یہ شراب کی بوتلیں اٹھائے، چرس کے سگریٹ سلگائے رقص کی مستی میں ہاتھ اٹھائے، جھومتے گاتے نظر آ رہے ہیں۔ انہیں کس بات کی خوشی ہے؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ان کے حساب سے سہی لیکن آج تو ان کی زندگی کا ایک سال کم ہوا ہے اور ان کے قدم قبر کے مزید نزدیک ہو گئے ہیں۔ کیا یہ اس سے بے خبر ہیں؟ جواب ملے گا ہر گز نہیں۔ ہر گز نہیں یہ سب جانتے ہیں لیکن ان کی آنکھوں پر عیش و مستی کی وہ پٹی بندھ چکی ہے کہ جو انہیں کچھ اور دیکھنے ہی نہیں دیتی
سال 2023 رخصت ہونے والا ہے چونکہ دن رات کے بدلنے کی نشانیاں عقل مندوں کے لئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آنے والے سال خواہ وہ عیسوی یا قمری ان کے بارے میں تھوڑا وقت نکال کر سوچ لیا جائے کیونکہ انسان ابھی حالات سے مایوس نہیں ہوا۔ ہر آنے والا سال امیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے اور انسان کے عزم کو پھر سے جوان کرتا ہے کہ جو کام پچھلے سال ادھورے رہ گئے انہیں اس سال مکمل کر لینا ہے۔سال شروع ہوتے ہی نجومی بھی ستاروں کی بساط بچھا کر آنے والے سال کے حالات بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ افراد کی طرح اقوام کی زندگی میں بھی نیا سال ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ قوموں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ گذشتہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے سال میں بہتر طریقے سے کام کیا جائے۔۔ ان کو یہ تو معلوم ہے کہ 2024 شروع ہورہا ہے اور 2023 ختم ہونے والا ہے مگر ایسے مسلمانوں سے پوچھاجائے کہ ان کو معلوم ہے کہ یہ کونسا ہجری سال ہے تو اکثر لوگوں کا جواب معذرت ہی ہوگا۔
یہ تو ایک مختصر سی کتھا تھی اس دیس میں سال نو کے استقبال اور اظہار مسرت کی۔خوشی منانے کے معتدل، سنجیدہ اور مہذب طریقے پر بات کرنے سے قبل خود اس بات پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ آیا یہ اس قدر خوشی منانے کا موقع ہے بھی یا نہیں؟ آخر ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ رات ’’گیارہ بج کر انسٹھ منٹ‘‘ سے ’’بارہ بجے‘‘ کے درمیان صرف ایک سیکنڈ کا فاصلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ایک ساعت میں دنیا میں کون سی ایسی عجیب تبدیلی واقع ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور عجیب و غریب غیر سنجیدہ حرکات پر اتر آتے ہیں؟
چلئے ہم کچھ دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ نئے سال کی آمد ایک خوشی کا موقع ہے۔ اس کے باوجود ذہن میں ایک اور سوال انگڑائی لیتا ہے کہ آیا ہماری مذہبی تعلیمات، پاکیزہ روایات اور صاف ستھرا تمدن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم نئے سال کا اس انداز میں استقبال کریں؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔
یہ طرز عمل ہماری تعلیمات اور روایات سے ذرا برابر میل نہیں کھاتا۔ہماری دینی تعلیمات اور اسلاف کی زندگیاں تو یہ بتاتی ہیں کہ کسی بھی کام کے آغاز میں اپنے خالق حقیقی کو یاد کرنا چاہئے۔ بحیثیت انسان اپنے معاشرتی، اخلاقی اور دینی فرائض کی تن دہی اور دیانت داری سے ادائیگی کا مخلصانہ عزم کرنا چاہئے۔ سال نو کی ابتداء میں مالکِ حقیقی کے سامنے سر بسجود شب گزاری، انسانوں کی بھلائی اور فلاح کی جانب ہماری توجہ کیوں نہیں جاتی؟ ہم یہاں یہ نیک فال کیوں نہیں لیتے کہ "چلو سال کا پہلا دن ہے کوئی اچھا عمل کر لیتے ہیں تاکہ سال بھر اس کی توفیق ملتی رہے”۔
ایک یہ بھی اصول ہے جو ہر وقت ملحوظِ نظر رہنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنے تمدن اور تہذیبی اقدار کو تعلیمات اسلام کی چھلنی سے چھان کر اپنائیں۔ جب ہماری ثقافت ہمارے دین کی ارفع تعلیمات و ہدایات سے متصادم نہ ہو تو اس کے اپنانے میں بظاہر کوئی مانع نہ ہونا چاہئے۔ رہا مسئلہ مغربی تمدن اور اجنبی ثقافت کی اندھی تقلید کا، یہ افسوسناک ہے۔ اس کا بڑا اور بنیادی سبب ہمارے اند رپایا جانے والا احساس کمتری ہے۔
انگریز برصغیر پر ایک طویل عرصہ حکمرانی کے بعد واپس انگلستان سدھار گیا ،مگر یہاں کے باشندوں پر اس کا فکری رعب تاحال قائم ہے۔ اپنے خالص اور صاف ستھرے تمدن کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اور مغربی انداز ِزیست کو قابل فخر سمجھنا دراصل اسی فکری بیماری کا نتیجہ ہے ،جسے اہل دردِ نے "خوئے غلامی” کہا ہے۔ مغربی کلچر کی بالادستی اور اس کے رجحان میں تیز رفتار اضافے کا ایک اور بڑا سبب ہمارا میڈیا ہے۔ میڈیا بالخصوص اس مہم میں سرگرم ہے۔ اور ہم سادہ لوح عوام ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے پیچھے سرپٹ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔
مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے اثرات اور ان کا باہم تصادم یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ جہاں تک سال نو کی تقریبات کا تعلق ہے تو اس بابت ہمارا طرزعمل نظر ثانی کا متقاضی ہے۔ نیا سال خواہ وہ قمری ہو یا شمسی ہو اس کی ابتداء ذاتی محاسبے سے کرنا چاہئے۔ ہم میں سے ہر شخص مختلف قسم کی گھریلو، خاندانی، معاشرتی، سماجی اور مذہبی ذمہ داریوں کا حامل ہے۔ ہر شخص کی ذات سے دوسرے بہت سے افراد کے حقوق متعلق ہوتے ہیں۔ سال بیت جانے پر اور نئے سال کے شروع میں ہمیں مذکورہ بالا ہلڑبازی کے مظاہرے کرنے کی بجائے اپنے آپ کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔
ہمیں اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے سال بھر کی کاکردگی کا جائزہ لینا چاہئے۔ کسی بھی کام کی ابتداء اچھی ہو تو پورا کام بہتر انداز میں انجام پذیر ہوجاتا ہے۔ ہم زندگی کے جس شعبے سے بھی وابستہ ہوں ،ہمیں چاہئے کہ نئے سال کی ابتداء ایک ولولے اور جوش کے ساتھ کریں۔ اپنی جانب تفویض کردہ ذمہ داریوں کو حد درجہ دیانت داری سے انجام دیں۔ سال بھر سستی اور کاہلی سے بچنے کا عزمِ صمیم کریں۔ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد (جو کسی بھی نسبت سے ہم سے متعلق ہو) کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اس انداز میں ہم اپنے سال کی ابتداء کر کے مثبت اور تعمیری نتائج کی امید رکھ سکتے ہیں ۔ بہرکیف یہ جو کئی سالوں سے ہمارے ملک میں نئے سال کی آمد کوجشن کی صورت میں منانے کی روش زور پکڑ رہی ہے، اس کے منفی پہلوؤں کی جانب توجہ دینا از حد اہم ہے ورنہ ہمیں اپنی روایات اور شناختیں بسر جانے میں کچھ زیادہ وقت نہ لگے
محترم حضرات دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تیوہار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تیوہار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہےلیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تیوہار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے ۔
در اصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ۲۵/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔
نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور ۳۱/دسمبر کی رات میں ۱۲/ بجنے کا انتظار کیا جاتاہے اور ۱۲/بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیویر (happy new year 2024)کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے؛ اس لیے کہ ان کے تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اوّل شراب دوسرے عورت۔
آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور ۳۱/ دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے؛ جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے یہی اسلامی کیلینڈر ہے؛ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔
آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے ، زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا؛ بل کہ افسوس کیا جاتاہے۔
گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔
یہ مختلف طر ح کے جشن یہود و نصاری اور دوسری قوموں میں منائے جاتے ہیں؛ جیسے: مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے، چلڈرنز ڈے اور ٹیچرس ڈے وغیرہ؛ اس لیے کہ ان کے یہاں رشتوں میں دکھاوا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے، اولاد کو بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال دیا جاتاہے اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا؛ اس لیے انہوں نے ان سب کے لیے الگ الگ دن متعین کر رکھے ہیں جن میں ان تمام رشتوں کا دکھلاوا ہوسکے؛
مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے اسلام نے سب کے حقوق مقرر کردیے ہیں اور پورا ایک خاندانی نظام موجود ہے؛ اس لیے نہ ہمیں ان دکھلاووں کی ضرورت ہے اور نہ مختلف طرح طے ڈے منانے کی؛ بل کہ مسلمانوں کو اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے؛تاکہ دوسری قوموں کی مشابہت سے بچا جاسکے؛ اس لیے کہ ہمارے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“۔ ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہے۔
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائے گی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛
اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“۔ ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی ، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔
یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ
ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو۔ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے۔ اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے۔ اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے۔ اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بل کہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔
ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں؛بل کہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔
حضرات محترم مسلمانوں کا نیا سال جنوری سے نہیں؛ بل کہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جو ہو چکا ہےاور آج 6 جمای الآخری 1445ھ ہے اور ہم میں سے اکثروں کو اس کا علم بھی نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں؛ اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے؛ چونکہ ہر قوم اپنی تاریخ کو کسی خاص واقعے سے مقرر کرتی ہے؛ اس لیے مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو خلیفہٴ ثانی حضرت عمر فاروق کے دورِ خلافت میں حضرت علی المرتضی کے مشورے سے واقعہ ہجرت سے مقرر کیا ۔
آئیے ہم عزم کریں کہ اب کی بار سال ِنو کی ابتداء نیکی، بھلائی اور فلاح کے کاموں سے کریں گے۔ مغرب کی طرز زندگی اور ان کی تہذیب کا مکمل بائیکاٹ کر کے ایک بامقصد زندگی گزارنے والے انسان اور اپنی دینی اور قومی روایات سے محبت کرنے والے مسلمان کی طرح نئے سال کو خوش آمدید کہیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ گذشتہ سال کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی تلافی کا پختہ ارادہ بھی کریں گے۔
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بچائے اور آقائے نامدار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین