Islamic Baby Girl Names from Quran | لڑکیوں کے قرآنی نام اور معنی – بچیوں کے قرآنی نام

Islamic Baby Girl Names from Quran | لڑکیوں کے قرآنی نام اور معنی – بچیوں کے قرآنی نام

محترم قارئین میں ہوں مولانا اسعد اور میں اپنے ویب سائٹ پر آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ دوستوں اس پوسٹ میں میں نے Islamic Baby Girl Names from Quran | لڑکیوں کے قرآنی نام اور معنی – بچیوں کے قرآنی نام رکھنے سے متعلق عوام کی  کچھ کوتاہیوں اور غلطیوں کو ذکر کیا ہے اور نیچے خوبصورت ناموں کی لنک موجود ہے اس پر کلک کر کے اپنے بچوں کے لیے بہترین نام تجویز کر سکتے ہیں۔

لڑکیوں کے قرآنی نام کے لیے قرآن کریم سے نام نکالنا

بعض گھرانوں میں یہ کوتاہی پائی جاتی ہے کہ وہ قرآن مجید سے اپنے من گھڑت طریقہ (جو بعض عوامی اور غیر معتبر کتابوں میں بھی لکھا ہوا ہے ) کے مطابق نام نکالتے ہیں اور اس کو قرآن کریم کی جانب منسوب کر کے کہتے ہیں کہ قرآن سے یہ نام نکلا ہے۔ العیاذ باللہ یہ تو اللہ تعالیٰ اور قرآن مجید پر افتراء اور جھوٹ باندھنا اور قرآن کریم کی تو ہین ہے کہ اس کو مہمل اور بے کار کاموں میں استعمال کیا گیا ۔ اس کو ترک کرنا چاہئے اور اچھے ناموں کے لئے علماء سے رجوع کرنا چاہئے۔

حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بعض کی عادت ہے کہ بچہ کا نام رکھنے کے لئے قرآن مجید میں کسی خاص طریقہ سے جو خود ان کا مقرر کیا ہوا یا ان کے کسی معتقد فیہ سے منقول ہوتا ہے غور کرتے ہیں تو اتفاق سے اس موقع پر کوئی نام لکھا ہوا مل گیا تو وہ، ورنہ کوئی حرف جو شروع سطر و غیرہ میں مل گیا لے کر اس حرف سے جو نام شروع ہو وہ نام معین کر دیتے ہیں۔

آگے لکھتے ہیں : اگر نام سے برکت مقصود ہے۔ اول تو وہ قرآن کے ایسے مطالعہ پر موقوف نہیں، حضرات انبیاء علیہم السلام کے نام پر نام رکھدو اور اسماء حسنی الہیہ میں سے کسی نام کے ساتھ عبد لگا کر رکھو، بالخصوص عبد اللہ و عبد الرحمن کی باتعیین ترجیح وارد ہے۔

بچیوں کے قرآنی نام رکھنے میں ایک اور کوتاہی۔

بعض لوگ ابتدا اپنی اولا د کا کوئی اچھا نام رکھ دیتے ہیں، مگر چند دنوں کے بعد کوئی دوسرا نام پکارنے لگتے ہیں، چاہے جیسا کیسا ہی ہو اور جب اس طرح کے ناموں پر ٹو کا جاتا ہے، تو کہتے ہیں کہ: اذان کا نام ( یعنی اصل نام ) فلاں ہے اور اس نام سے تو بس پکار لیتے ہیں، ایسے لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ نام کا مقصد تعارف اور پہچان ہی ہے اور جب اس اچھے نام کو اس کام کے لئے استعمال نہیں کیا گیا تو اس نام کے رکھنے کا فائدہ ہی کیا رہا اور شریعت اسلامیہ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہذا یہ کوئی اسلامی طریقہ نہیں ہے اور اس نام کا کوئی اعتبار بھی نہیں ہے ، بلکہ جس نام سے پکارا جاتا ہے، وہی نام اصل ہے اور اس کا اثر مسلمی پر مرتب ہوگا ؛ لہذا اس سے احتراز کرنا چاہئے۔

کسی مصیبت یا بیماری کی وجہ سے نام بدلنا۔

بعض لوگ جب کوئی بیمار ہو جاتا ہے یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کا نام بدل دیتے ہیں سو معلوم ہونا چاہئے کہ جو نام غلط اور خلاف شرع ہوں ان کو تو ہر حال میں بدلنا چاہئے اور جو نام شرعی اعتبار سے ٹھیک ہیں ، ان کو بدلنا ثابت نہیں ہے اس لئے اس سے بچنا چاہئے۔

فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود الحسن صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جو نام خلاف شرع ہو اس کا بدلنا حدیث شریف سے ثابت ہے شریعت کے موافق جو نام ہو اس کو جسمانی امراض کے علاج کے لئے بدلنا ثابت نہیں ۔ فقط واللہ اعلم۔

بچوں کے نام کس دن رکھے جائیں؟

احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش سے لے کر ساتویں دن تک بھی اس کی گنجائش ہے یعنی پہلے ہی دن نام رکھ دیا جائے اور اگر کسی وجہ سے نہ رکھا جا سکا تو ساتویں دن تک رکھ لئے جائیں اس سے زیادہ تاخیر نہ کی جائے ۔ اس لئے کہ بعض بچوں کے نام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دن رکھے ہیں۔

چنانچہ اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا نام اسی دن رکھا ، ایسے ہی حضرت ابو طلحہ کے لڑکے کا نام اور حضرت ابواسید کے بچہ کا نام اس دن رکھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حضرت حسن اور حضرت حسین کے نام ساتویں دن رکھے ۔ اور بعض روایات میں ساتویں دن نام رکھنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اور اس سے زیادہ تاخیر کی کوئی روایت نظر سے نہیں گزری۔

رہی یہ بات کہ مستحب کیا ہے یعنی پہلے دن نام رکھنا یا ساتویں دن تو اس سلسلہ میں کوئی اٹل فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ؛ اس لئے کہ روایات مختلف ہیں ۔ علامہ شہاب الدین قسطلانی رحمہ اللہ نے علامہ نووی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے: فرمایا کہ بچہ کا نام ساتویں دن یا پیدائش کے دن رکھنا مسنون ہے، دونوں اقوال کے لئے احادیث صحیحہ موجود ہیں۔

جو بچہ پیدا ہو کر مر جائے اس کا بھی نام رکھنا چاہئے۔

اگر کوئی بچہ پیدا ہو کر مر جائے تب بھی اس کا نام رکھنا چاہئے۔ ردالمختار میں ہے: کہ جب تم میں سے کسی کے یہاں بچہ پیدا ہو کر مر جائے تو نام رکھنے تک اسے دفن نہ کرے، اگر لڑکا ہو تو لڑکے کا نام اور اگر لڑکی ہو تو لڑکی کا نام رکھے، اور اگر معلوم نہ ہو سکے ( کہ لڑکا ہے یالڑ کی ) تو ایسا نام رکھے جو دونوں کے لئے مناسب ہو )

جو بچے پیدا ہوئے اور چند گھنٹوں یا چند دن بعد مر گئے ان کے نام رکھنا ضروری ہیں اور ایسے بچے جو دس پندرہ سال قبل مر چکے جن کے نام اُس وقت نہیں رکھے گئے تو اب ایسے بچوں کے نام رکھنے چاہئیں ۔

لڑکیوں کے قرآنی ناموں وغیرہ کی فہرست

Leave a Comment