بہترین اردو شاعری | Best Urdu Poetry

بہترین اردو شاعری | Best Urdu Poetry

میرے پیارے اسلامی بھائیوں یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو شاعری (Urdu Shayari) شعر و ادب سے دلچسپی انسان کے حسن ذوق کی علامت ہے، ہر زمانے میں اردو شاعری (  Best Urdu Poetry) شعر و ادب علمی پیاس بجھانے کا ذریعہ رہے ہیں۔شعر و شاعری کو اصناف سخن میں سب سے زیادہ موثر طاقتور صنف قرار دیاگیا ہے، آج کل نئی نسل اردو شاعری  سے نابلد ہوتی جارہی ہے نتیجتا اردو ادب کا اچھا خاصہ سرمایہ اپنے پڑھنے والوں کا راستہ دیکھ رہا ہے، لہذا ہم آپ کے لیےبہترین اردو شاعری ( Best Urdu Poetry) شعر و ادب سے وابستہ رکھنے اور ان میں ذوق و شوق پیدہ کرنے کے لیے نظم و نثر کے مختلف ذوقیہ اردو اشعار (Urdu Ashar) کے حصے چھاٹ کر پیش کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کو پسند آئے گا۔

اردو شاعری

انجام اس کے ہاتھ ہے آغاز کرکے دیکھ 

بھیگے ہوئے پروں سے ہی پرواز کرکے دیکھ

 

الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو

ہر چیز میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو

 

 اللہ میرے رزق کی برکت نہ چلی جائے

 دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے

 

بلاتی ہے موجیں کہ طوفاں سے کھیلو

کہاں تک چلے گا کنارے کنارے

 

باراں کی طرح لطف و کرم عام کیے جا

آیا ہے جو دنیا میں تو کچھ کام کئے جا

 

بڑا آسان ہے کافر کا مسلمان ہونا

بڑا مشکل ہے مسلماں کا مسلمان ہونا

 

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

 

بکھر تو جاؤں گا لیکن اجڑ نہ جاؤں گا میں

حیات کھوں کے بھری کائنات پاؤں گا میں

 

بس یہی سوچ کے احباب نہیں آتے ہیں

دوستی کے تجھے آداب نہیں آتے ہیں

 

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا

 

بیٹھو نہ دور ہم سے دیکھو خفا نہ ہونا

قسمت سے ملے ہو تو مل کے جدا نہ ہونا

 

باتوں سے بھی بدلی ہے کسی قوم کی تقدیر

بجلی کے چمکنے سے اندھیرے نہیں جاتے

 

بہار اب جو چمن میں آئی ہوئی ہے 

یہ سب پودا انہی کی لگائی ہوئی ہے

 

پڑھنا ہمارا نامہ ذرا دیکھ بھال کے

کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے

 

پہلے یہ طے کرو وفادار کون ہے

پھر وقت خود بتائے گا غدار کون ہے

 

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

 

تیرے محبوب کی یا رب شبہات لے کے آیا ہوں

حقیقت اس کو تو کر دے میں صورت لے کے آیا ہوں

 

تمنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام کر جاؤں

اگر کچھ ہو سکے تو خدمت اسلام کر جاؤں

 

تو ادھر ادھر کی بات نہ کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

 

تو ہی ناداں چند کلیوں پہ قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا

 

تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر

سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر

 

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے

 

تو مجھے نواز دے تو یہ تیرا کرم ہے ورنہ

تیری رحمتوں کا بدلہ میری بندگی نہیں ہے

 

تم ہو آپس میں غضب ناک وہ آپس میں رحیم

تم خطاکار و خطابیں و خطاپوش و کریم

 

تاریخ کی نظروں نے وہ دور بھی دیکھا ہے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

 

تمنا درد دل کی ہے تو کر خدمت فقیروں کی

نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینے میں

 

تمہیں غیروں سے کب فرصت ہم اپنے غم سے کب خالی

چلو بس ہو چکا ملنا نہ تم خالی نہ ہم خالی

 

تجھے میں بد دعا دینے کو ظالم کس کا دل لا

برا کہنے کو ہوتا ہوں بھلا دل سے نکلتا ہے

 

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے

پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

 

ٹھہرے ہوئے قدموں سے سفر سر نہیں ہوتا

ہاتھوں کی لکیروں میں مقدر نہیں ہوتا

 

جس جگہ دل ہی جھکتا نہیں آپ کا

اس جگہ سر جھکانے سے کیا فائدہ

 

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

 

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا 

 

جاگنا ہو جاگ لے افلاک کے سایہ تلے

حشر تک سوتا رہے گا خاک کے سایہ تلے

 

جیتے ہو تو کچھ کیجئے زندوں کی طرح

مردوں کی طرح جیے تو کیا خاک جیے

 

جو پہنچا حشر میں ثاقب فرشتے سب پکار اٹھے

محمد کے غلاموں کے غلاموں کا غلام آیا

 

جو زہر تھا تو اسے زہر ہی کہاں ہم نے

یہ اور بات کہ پھر اس کو پی لیا ہم نے 

 

جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی

کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی

 

چوٹ پڑی ہے دل پر تو پھر آہ لبوں تک آئی ہے

یہ چھن چھن سے بول اٹھنا تو شیشے کا دستور نہیں 

 

حوصلہ مند ہی پاتے ہیں نشان منزل

ڈرنے والوں کی تو مرنے پہ نظر جاتی ہے

 

حقیقت خرافات میں کھو گئی

یہ امت روایات میں کھو گئی

 

حسن کی شان میں ہو جائے نہ گستاخی کہیں

تم چلے جاؤ تمہیں دیکھ کے پیار آتا ہے

 

حوصلے سے حادثوں پر فتح پانا چاہیے

مشکلوں میں بے تکلف مسکرانا چاہیے

 

حفاظت جس سفینے کی انہیں منظور ہوتی ہے

کنارے تک اسے خود لاکے طوفاں چھوڑ جاتے ہیں

 

حوصلے  جب بلند ہوتے ہیں 

بڑھ کے منزل سلام کرتی ہے

 

حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمار

کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا

 

خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں

جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں

 

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

 

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

 

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے

کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

 

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

 

خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے بندہ

یہی وہ در ہے جہاں آبرو نہیں جاتی

 

خود نہ تھے راہ پر جو اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

 

خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل

دل و زبان مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

 

خدا جانے محبت کے یہ کیا اثرار ہوتے ہیں

جو سر سجدوں میں جھکتے ہیں وہ زیب دار ہوتے ہیں

 

دل کس کی چشم مست کا سرشار ہو گیا

کس کی نظر لگی کہ یہ بیمار ہو گیا

 

دبا سکتی نہیں ظلمت ہمارے عزم محکم کو

اندھیروں میں اجالوں کے نقیب و پاسباں ہم ہیں

 

دیکھا جو حسن یار طبیعت مچل گئی

آنکھوں کا تھا قصور چھری دل پہ چل گئی

 

دل کی گتھی جو تھی الجھی سو وہ الجھی رہے گئی

اپنی رودادِ الم یوں ہی ادھوری رہ گئی

بہترین نعت شریف پڑھیے

Leave a Comment