Sultan Abdul Hamid History in Urdu – سلطان عبد الحمید کون تھے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ: پیارے اسلامی بھائیوں آپ کیسے ہو؟ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے، اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھیں۔ دوستوں کیا آپ سلطان عبد الحمید کی تاریخ( sultan abdul hamid history in urdu) پڑھنا چاہتے ہیں یا سلطان عبد الحمید کی سوانح حیات ( sultan abdul hamid biography in urdu) پڑھنا چاہتے ہیں یا سلطان عبد الحمید کی کتاب مطلوب ہے (sultan abdul hamid book in urdu) تو آپ صحیح جگہ پر ہیں، آپ یہاں سے سلطان عبد الحمید کی مکمل تاریخ (sultan abdul hamid full history in urdu) مختصر وقت میں پڑھ کر مستفید ہوسکیں گے۔ میرے پیارے بھائی اب آپ نیچے لکھے ہوئے سلطان عبدالحمید کا پس منظر ( Sultan Abdulhamid II) پڑھنا شروع کیجیے، نیز پڑھنے کے بعد اپنے متعلقین کے ساتھ بھی شیر کیجے گا تاکہ اُنہیں بھی تاریخ اسلام (tareekh e islam) کو جاننے اور سمجھنے کا موقع مل سکے۔
سلطان عبد الحمید کون تھے؟
سلطان عبد الحمید کی ولادت ۱۸۴۲ء کو ہوئی جب ان کے والد سلطان عبد المجید خلیفہ تھے۔ سلطان عبد المجید پہلے عثمانی خلیفہ ہیں جنہوں نے انقلاب فرانس اور یورپ کے صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں رونما ہونے والے فکری اور نظریاتی رجحانات کو خلافت عثمانیہ کی حدود میں آنے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے ۱۸۵۴ء اور ۱۸۵۶ء میں دو فرمان جاری کیے جن میں سیاسی تنظیموں کے قیام کی اجازت دی گئی اور سیاسی و جمہوری عمل کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا گیا۔
ان کے بارے میں مقدمہ نگار کا کہنا ہے کہ وہ اپنے وزیر رشید پاشا کے زیر اثر تھے جس کا تعلق فری میسن سے تھا اور اس نے ترکی میں مغربی فکر کے فروغ کے لیے مسلسل کام کیا سلطان عبد المجید کی وفات کے بعد ان کے بھائی سلطان عبد العزیز تخت پر متمکن ہوئے اور ان کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے مرحوم بھائی کے ہم خیال تھے اور مغربی فکر و فلسفہ کے فروغ کی حمایت کرتے تھے۔ انہی کے دور میں انجمن نو جوانان ترکی کا قیام عمل میں لایا گیا جوتر کی معاشرہ کو مغربی فلسفہ میں مکمل طور پر ڈھالنے کے لیے وجود میں آئی۔
۱۸۶۰ء میں تشکیل پانے والی اس سیاسی جماعت نے ۱۸۷۵ ء تک یہ پوزیشن حاصل کر لی کہ اس کی کوششوں سے سلطان عبد العزیز کو معزول کر کے شاہی خاندان کے ۳۶ سالہ نوجوان سلطان مراد کو تخت نشین کر دیا گیا جس کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ وہ برطانوی ولی عہد کا ذاتی دوست ، فری میسن کارکن، اور انجمن نو جوانان ترکی کے پروگرام کا پر جوش حامی تھا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ المیہ پیش آیا کہ اس کے تخت نشین ہونے کے چند روز بعد اس کے پیش رو معزول سلطان عبد العزیز کو قتل کر دیا گیا اور یہ مشہور کر دیا گیا کہ اس نے خود کشی کرلی ہے۔
اس کا اثر سلطان مراد پر یہ ہوا کہ اس کا دماغ مختل ہو گیااور وہ تخت پر بیٹھنے کے بعد ۹۰ دن تک کسی پبلک تقریب میں شریک نہ ہو سکا۔ حتیٰ کہ اسے معزول کرنے اور اس کی جگہ سلطان عبد الحمید کو تخت نشین کرنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا۔ چنانچہ سلطان مراد کی معزولی کے بعد ۱۸۷۶ء تک خلیفتہ امسلمین کے طور پر انہوں نے فرائض سر انجام دیے اور پھر انہیں بھی معزول کر کے نظر بند کر دیا گیا سلطان عبد الحمید مغربی فلسفہ کی مفید باتوں کو قبول کرنے کے حق میں تھے اور اس کی روشنی میں اپنے نظام میں ضروری تبدیلیاں لانے کے لیے تیار تھے ۔
جیسا کہ خود سلطان عبد الحمید کی ایک تحریر کا انہوں نے حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ : ”یہ کہنا درست نہیں ہے کہ میں مغرب کی طرف سے آنے والی ہر تبدیلی کا مخالف ہوں۔ البتہ میں جلد بازی کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ نرمی اور اعتدال کے ساتھ فطری رفتار سے ضروری تبدیلیوں کو قبول کیا جائے اور ہمیں جن باتوں میں اللہ تعالیٰ نے برتری دے رکھی ہے انہیں آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے ۔ اسلام ترقی کا مخالف نہیں ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ داخلی ضروریات کو ترقی کی بنیاد بنایا جائے اور بیرونی قوتوں کے اغراض و مقاصد کو خاطر میں نہ لایا جائے ۔ (روز نامہ اوصاف ، اسلام آباد ، تاریخ اشاعت ۲۴ : نومبر ۱۹۹۹ء )
خلافت عثمانیہ کے خاتمہ میں یہودی کردار
یہودی عالمی سطح پر فلسطین میں آباد ہونے اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ بیت المقدس پر قبضہ کر کے مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا پروگرام بنا چکے تھے اور اس کے لیے مختلف حوالوں سے راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔سلطان عبد الحمید مرحوم نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم کا وفدان کے پاس آیا اور ان سے درخواست کی کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے ۔
چونکہ عثمانی سلطنت کے قانون کے مطابق یہودیوں کو فلسطین میں آنے کی اور بیت المقدس کی زیارت کی اجازت تو تھی مگر وہاں زمین خرید نے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز تک پورے فلسطین میں یہودیوں کی کوئی بستی نہیں تھی، یہودی دنیا کے مختلف ممالک میں بکھرے ہوئے تھے اور کسی ایک جگہ بھی ان کی ریاست یا مستقل شہر نہیں تھا۔ سلطان عبد الحمید مرحوم نے یہ درخواست منظور کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسرائیل، بیت المقدس اور فلسطین کے بارے میں یہودیوں کا عالمی منصوبہ ان کے علم میں آچکا تھا اس لیے ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس صورتحال میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دیتے۔
سلطان مرحوم کا کہنا ہے کہ دوسری بار یہودی لیڈروں کا وفدان سے ملا تو یہ پیشکش کی کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے لیے ایک بڑی یونیورسٹی بنانے کے لیے تیار میں جس میں دنیا بھر سے یہودی سائنس دانوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے یہودی سائنسدان خلافت عثمانیہ کا ہاتھ بٹائیں گے، اس کے لیے انہیں جگہ فراہم کی جائے اور مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں ۔ سلطان عبد الحمید مرحوم نے وفد کو جواب دیا کہ وہ یو نیورسٹی کے لیے جگہ فراہم کرنے اور ہر ممکن سہولتیں دینے کو تیار ہیں بشرطیکہ یہ یو نیورسٹی فلسطین کی بجائے کسی اور علاقہ میں قائم کی جائے۔یو نیورسٹی کے نام پر وہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن وفد نے یہ بات قبول نہ کی۔
سلطان عبدالحمید مرحوم نے لکھا ہے کہ تیسری بار پھر یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا اور یہ پیشکش کی کہ وہ جتنی رقم چاہیں انہیں دے دی جائے گی مگر وہ صرف یہودیوں کی ایک محدود تعداد کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دیں۔ سلطان مرحوم نے اس پر سخت غلیظ و غضب کا اظہار کیا اور وفد کو ملاقات کے کمرے سے فورا نکل جانے کی ہدایت کی نیز اپنے عملہ سے کہا کہ آئندہ اس وفد کو دوبارہ ان سے ملاقات کا وقت نہ دیا جائے۔ اس کے بعد ترکی میں خلافت عثمانیہ کے فرمانر واسلطان عبد الحمید مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک کی آبیاری کی گئی اور مختلف الزامات کے تحت عوام کو ان کے خلاف بھڑکا کر ان کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔
چنانچہ حکومت کے خاتمہ کے بعد انہوں نے بقیہ زندگی نظر بندی کی حالت میں بسر کی اور اسی دوران مذکورہ یاد داشتیں تحریر کیں ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں خلافت سے برطرفی کا پروانہ دینے کے لیے جو وفد آیا اس میں ترکی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر قر صوبھی شامل تھا جو اس سے قبل مذکورہ یہودی وفد میں بھی شریک تھا۔ اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ سلطان مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک اور ان کی برطرفی کی یہ ساری کارروائی یہودی سازشوں کا شاخسان تھی۔
سلطان عبدالحمید مرحوم ایک باغیرت اور باخبر حکمران تھے جنہوں نے اپنی ہمت کی حد تک خلافت کا دفاع کیا اور یہودی سازشوں کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے لیکن ان کے بعد بننے والے عثمانی خلفاء کٹھ پتلی حکمران ثابت ہوئے جن کی آڑ میں مغربی ممالک اور یہودی اداروں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ایجنڈے کی تکمیل کی اور ۱۹۲۴ء میں خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ ترکوں نے عرب دنیا سے لاتعلقی اختیار کر کے ترک نیشنلزم کی بنیاد پر سیکولرحکومت قائم کر لی ، جبکہ مکہ مکرمہ کے گورنر حسین شریف مکہ نے، جو اردن کے موجودہ حکمران شاہ عبد اللہ کے پردادا تھے، خلافت عثمانیہ کے خلاف مسلح بغاوت کر کے عرب خطہ کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ انہیں یہ چکمہ دیا گیا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ان کی خلافت عالم اسلام میں قائم ہو جائے گی مگر ان کے ایک بیٹے کو عراق اور دوسرے بیٹے کو اردن کا بادشاہ بنا کر ان کی عرب خلافت کا خواب سبو تاژ کر دیا گیا۔ حجاز مقدس پر آل سعود کے قبضہ کی راہ ہموار کر کے حسین شریف کو نظر بند کر دیا گیا جنہوں نے باقی زندگی اسی حالت میں گزاری۔