فٹنس اور صحت ایک چیز نہیں ہے | صحت کی اہمیت
فٹنس اور صحت ایک چیز نہیں ہے :پیارے دوستوں میں ہوں محمد اسعد، اس پوسٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ورزش سےپہلے اور ورزش کے دوران کن چیزوں کے پینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔
فٹنس اور صحت ایک چیز نہیں ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ فٹنس، صحت اور کارکردگی تینوں ایک دوسرے سے حیرت انگیز طور پر مختلف ہیں۔ ان کی فردا فردا تعریف یوں ہے۔
فٹنس آپ کا اپنے ماحول کے تقاضوں اور ضروریات سے اچھی طرح عہدہ براہوسکنا۔
صحت ۔محض بیماری سے مبرا ہونے کا نام ہے۔
( کارکردگی۔ آپ کوئی بھی کام کتنی اچھی طرح کرتے ہیں۔(صحت مند زندگی پر مضمون
ہم دیکھتے ہیں کہ آپ فٹ ہوئے بغیر بھی صحت مند ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی صحت کمزور لیکن کارکردگی شاندار ہو۔ تقریبا ہر اولمپک مقابلے میں ایتھلیٹ نزلہ، زکام، بخار، کھانسی یہاں تک کہ اسہال (دست آنا) میں مبتلا ہونے کے باوجود اعلی ترین کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
یہ خیال کہ کھیل آپ کو صحت مند بناتے ہیں اب فرسودہ ہوچکا۔ بجائے اس کے کھیل آپ کو زخمی کر سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ غیرصحتمندانہ نہیں ہوتے لیکن بعض صورتوں میں ہو بھی سکتے ہیں۔
صحتمند ہونے کے لیے فٹ ہونا شرط نہیں۔ کیونکہ اگر صحت مند ہونے کی تعریف بیماری سے مبرا ہونا ہے تو فٹنس صحت نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ فٹنس صحت اور کارکردگی کی تعریف میں عملی طور پر اپنے ماحول سے موثر طور پر عہدہ برا ہونے کی صلاحیت شامل کر لیں تو تینوں ایک ہی چیز بن جاتے ہیں۔
ایک ماہر تیراک کا کہنا ہے کہ چند سال ہوئے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ تیراکی میں مشغول تھا حالانکہ اسے پھیپھڑوں کا سرطان تھا اور اس کا ایک پھیپھڑا نکالا جا چکا تھا جبکہ دوسرا جراثیم زدہ تھا۔ اگلے روز اسے ہسپتال میں بھی داخل ہونا تھا۔ اس کے باوجود اس نے مجھے ۵۰ گز تیرنے کا چیلنج دے ڈالا میں نے سوچا کہ اس سے اپنے سے کچھ فاصلہ آگے رکھوں۔ لیکن وہ اس کے لیے راضی نہ ہوا۔ اس کی بیماری کے پیش نظر میں نے یہ نام مناسب سمجھا۔
مقابلے میں نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن وہ پھر بھی جیت گیا۔ اگلے روز وہ ہسپتال میں داخل ہوا اور ایک ماہ کے بعد مر گیا۔ صحت اور کارکردگی کے درمیان کوئی تعلق نہ ہونے کی اس سے بہتر مثال اور نہیں ہو سکتی۔
فٹنس ایک نعمت ہے۔
ورزش کے جدید طریقوں کا سلسلہ ۱۹ ویں صدی میں سویڈن سے شروع ہوا۔ وہاں کے زمینداروں کو مزارعوں کی جھکی ہوئی کمراور ڈھیلے ڈھالے جسم دیکھ کر کوفت ہوتی تھی۔ لہذا انہوں نے اس کا حل ڈرل کے ذریعے نکالا۔ ان کا خیال تھا کہ سپاہیوں جیسے مضبوط جسم والے کارکن ہی سہی طرح کام کر سکتے تھے۔ لیکن ان سے ایک بات پوشیدہ رہی کہ انسانی جسم کا ہر وقت اکڑے ہوئے رہنا بھی غیر قدرتی اور نقصان دہ ہے۔ درحقیقت عین جیومیٹری کی اشکال کے مطابق جسم کو حرکت دینا خلافِ فطرت ہے
جبکہ جسم کو رواں اور گول دائرے کی طرز پر حرکت پذیر ہونا چاہیے سینہ تان کر۔ کندھے پیچھے کی طرف کھینچے ہوئے اور گردن کو اکڑا کر چلنا تمام پٹھوں اور خصوصا ریڑھ کی ہڈی پر اضافی بوجھ ڈالنا ہے۔ جس سے اکثر اوقات کمر میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ کندھوں کو قدرت نے ڈھیلے اور اطراف کی طرف جھکے رہنے کے لئے بنایا ہے۔ اور جسم کو بھی ایک حد تک ہی سیدھا رہنا چاہیے۔اس سے زیادہ کھینچا تانی فطرت کے خلاف ہے۔
ان سب باتوں سے قطع نظر انسانی ذہن شروع سے ہی جسمانی مشقت سے کتراتا ہے۔ خواہ وہ ورزش ہی کیوں نہ ہو۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہماری تہذیبی روایات اس کاہلی کو مزید فروغ دیتی ہیں مثلا سوار کو پیدل چلنے والے اور بیٹھنے والے کو کھڑے ہونے والے سے بہتر خیال کیا جاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم چلنے پھرنے اور جسمانی مشقت سے جی چرانے کے عادی ہو گئے ہیں۔حالانکہ یہ صحت مند رہنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔