امریکہ کا شہر لاس اینجلس میں اب تک کتنا نقصان ہوا ؟ کیا اسے عذابِ خداوندی کہا جا سکتا ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ بات تو سبھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ امریکہ میں ایک ریاست ہے، ایک سٹیٹ ہے، جس کا نام ہے کیلیفورنیا، اِس ریاست کا ایک شہر ہے، جس کا نام ہے لاس اینجلس۔
اِس شہر میں آگ لگی ہوئی ہے اور یہ اتنی بھیانک اور اتنی خطرناک آگ ہے کہ اسے ہسٹری کی بدترین آگ کہا جا رہا ہے تاریخ کی بدترین آگ اس کو کہا جا رہا ہے اور اب تک جو اِس آگ کی وجہ سے نقصان ہوا ہے بتایا جا رہا ہے کہ تقریبا 12 ہزار سے زائد مکان اور عمارتیں بالکل راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں دو لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں، جو نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، اپنے گھروں کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں
اور یہ کہا جا رہا ہے کہ تقریبا 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، یعنی 150 ڈالر کو اگر آپ بھارتی روپیوں میں کنورٹ کر کے دیکھیں تو یہ اتنا بڑا اماؤنٹ بنتا ہے کہ اس سے بہت سی جو چھوٹی کنٹریز ہیں بہت سے جو چھوٹے ممالک ہیں ان کا سالانہ بجٹ اس سے نکل سکتا ہے، تو اتنا بڑا نقصان ہوا ہے
اور جو ہلاک ہوئے ہیں لوگ ان کی تعداد ابھی تک تو صرف 13 بتائی جا رہی ہے لیکن اس بات کا اندیشہ ہے، کہ اس میں مزید اضافہ ہوگا، بعد میں جو نئی تحقیقات آئیں گی وہ بتائیں گی کہ کتنے لوگ اصل مارے گئے ہیں اور یہ وہ علاقہ ہے جہاں نقصان ہوا ہے جہاں عرب پتی لوگ رہتے تھے، بڑے بڑے لوگ اور سیلیبرٹی اور فلم انڈسٹری کے لوگ یہاں رہا کرتے تھے، لاس اینجلس کا وہ پہاڑی علاقہ جو آگ کی لپیٹ میں آیا ہے۔
آپ نے تصوریں اور ویڈیو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ سب امیر لوگوں کے گھر تھے، عام بندہ تو فلیٹوں میں رہتا ہے ۔ تو ان کو یہاں نقصان ہوا ہے اور اس طرح کی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں جو نہایت افسوسنا ک ہے کہ یہاں پر لوٹ مار کے واقعات بھی ہورہے ہیں، یعنی اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ایسے لوگ یہاں پر موجود ہیں کہ اس وقت لوٹ مار کرنے پر لگے ہوئے ہیں جو چیزیں بھی جن کو نظر آرہی ہیں وہ اٹھا کے لے کے چلے جا رہے ہیں،بہرحال یہ تو صورتحال ہے وہاں کی۔
یہاں کچھ لوگوں کا سوال ہے کہ کیا اسے عذابِ خداوندی کہا جا سکتا ہے؟ جیسا کہ بہت سے لوگ کہہ بھی رہے ہیں، یہ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ امریکہ نے جو غزہ کے اندر غزہ کے مظلوموں پر، نہتوں پر، بچوں پر، وہاں کی عورتوں پر جو مظالم ہوئے جو ظلم ہوئے تو امریکہ نے اس کا ساتھ دیا، وہاں ہتھیار فراہم کیے، تو اس لیے یہ اللہ کا عذاب ہے اور غذا میں جو کچھ ایک سال کے اندر ہوا تباہی اور بربادی مچی تو وہ اللہ تبارک و تعالی نے چند گھنٹوں میں یہاں کر کے دکھا دیا اور اللہ کی طرف سے ایک تیز ہوا چلی ہوئی ہے جو بڑھتی ہی جا رہی ہے، اگ پھیلتی ہی جا رہی ہے تو اسے عذابِ خداوندی بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا اس کو عذاب خداوندی کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ تو دیکھیں جواب میں عرض یہ ہے کہ جو لوگ ظالم ہوتے ہیں ظلم کرنے والے ہوتے ہیں تو ان کو جو اصل سزا ملے گی وہ تو آخرت ہی میں ملے گی، آخرت کا جو عذاب ہے جو قبر میں شروع ہو جاتا ہے، پھر اِس کے بعد میدان حشر میں اور پھر جہنم میں، تو اصل سزا تو وہی ہے، وہیں عذاب ہوگا البتہ جو لوگ ظلم کرنے والے ہیں، قران مجید کی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالموں کو اللہ تبارک و تعالی کبھی کبھی اِس دنیا کے اندر بھی عذاب دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی آیت ہے: وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَٰلِكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ۔ کہ یقینا وہ لوگ کہ جنہوں نے ظلم کیا، ان کے لیے اُس عذاب کے علاوہ بھی ایک عذاب ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ گویا کہ ان کو دنیا میں بھی عذاب ہوگا اور اخرت میں بھی عذاب ہوگا اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے۔
اگرچہ اعلان ہے کہ جو ظالم ہے ان کو ڈھیل دی جاتی ہے لیکن اُس کی جب پکڑ آتی ہے تو پکڑ بھی بہت شدید ہوتی ہے، جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو تاریخ میں جہاں ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں کہ جن کی دنیا ہی کے اندر پکڑ کی گئی اور سخت پکڑ کی گئی۔ لیکن ایسے لوگ ایسے اشخاص بھی ملتے ہیں کہ جنہوں نے ظلم کیے لیکن دنیا کے اندر اُن کی کوئی پکڑ نہیں کی گئی۔
تو اصل تو پکڑ آخرت ہی کے اندر ہونی ہے لیکن اللہ تبارک و تعالی دنیا کے اندر بھی اس طرح کی چیزوں کو دکھلا تے رہتے ہیں اور یہ جو اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں یہ ظاہر ہے اللہ تبارک و تعالی کا جو اصل عذاب ہے اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہوتے ہیں، ایک چھوٹی سی جھلک ہوتے ہیں، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عذاب کے چھوٹی سی جھلک ہے، ہلکی سی ایک جھلک ہے، اس لیے کہ جو ظالم ہیں اللہ تبارک و تعالی نے ان کے بارے میں اعلان بھی کر رکھا ہے کہ دنیا کے اندر بھی ان کو عذاب دیا جائے گا اور ہمارے سامنے وہ ساری چیزیں ہیں کہ وہ لوگ جو غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر ہنس رہے تھے مسکرا رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ جنگ بندی نہیں ہونی چاہیے اور ان لوگوں کو تو اور سزائیں ملنی چاہیے وہ رو رہے ہیں چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ان کی نگاہوں کے سامنے ان کے گھر جل رہے ہیں، وہ اپنے گھروں کو جلتا ہوا دیکھ کر رو رہے ہیں ان کی آنکھوں سے آنسو جا ری ہیں لیکن ان کی آنکھوں کے آنسو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔تو اللہ تبارک و تعالی نے ایسے ظالموں کو دنیا ہی کے اندر یہ سارا منظر دکھلا دیا ہے۔
بہرحال ایک بات تو یہ کہ اصل عذاب آخرت کے اندر ہوتا ہے تو اِس لیے کہ دنیا کے اندر بھی اُس کے نمونے دیکھنے کو مل جاتے ہیں اور کچھ کچھ جھلکیاں جو ہیں اللہ تبارک و تعالی دکھا دیتے ہیں، تو یہ دنیا کے اندر طوفان اور زلزلے دوسری چیزیں آتی ہیں تو یہ ہلکی سی جھلک ہوا کرتی ہیں اخرت کے عذاب کی۔
ایک بات جو انتہائی اہم ہے جو ہم سب کو پیشِ نظر رکھنی چاہیے وہ یہ ہے چاہے کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو کہ جب دنیا کے اندر کہیں بھی اِس طرح کے واقعات پیش اتے ہیں تو وہ حضرات جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ان کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ طاقتیں دنیا کی جو اپنے آپ کو سپر پاور کہتی ہیں، وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں جو دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم صرف اِس زمین ہی پر قبضہ جمائے ہوئے نہیں بیٹھے بلکہ اس زمین کے علاوہ جو اور سیارے ہیں ان پر بھی ہماری نگاہیں ہیں، ان پر بھی ہماری حکومتیں ہیں اور ہمارے پاس ایسی ٹیکنالو جی ہے کہ صرف زمین کے اوپر جو کچھ ہو رہا ہے ہم اسی کو نہیں جانتے بلکہ سمندروں کے تہوں کے اندر جو کچھ ہوتا ہے ہم اس کی بھی خبر رکھتے ہیں۔ تو جو اس طرح کے دعوے کرنے والے ہیں، جو اپنے زمانے کے فرعون بنے بیٹھے ہیں، ان کو یہ سب سوچنا چاہیے کہ جب اللہ کے عذاب کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی آجاتی ہے نا، تو وہ کیسے بے بس ہو جاتے ہیں، کیسے ان کی ساری ٹیکنالوجی فیل ہو جاتی ہے، کیسے ان کی ساری طاقت بے بس ہو جاتی ہے، اور کچھ نہیں کر سکتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ آگ کو رو کے لیکن آگ رک نہیں پاتی، اُن کے تمام کوششوں کے باوجود بھی وہ کچھ نہیں کر پاتے، تو اس طرح کے تمام لوگوں کو سوچنا چاہیے، کہ ظاہری طور پر اس طرح کے مواقع پر اسباب تلاش کر لیے جاتے ہیں کہ فلاں سبب کی وجہ سے ایسا ہو گیا ہوگا، کلائمیٹ چینج ہو رہا ہے اس کی وجہ سے یہ سب ہو گیا ہوگا، یا کوئی اور ریزن تلاش کر لیا جاتا ہے۔ لیکن ذہنوں میں کبھی یہ نہیں آتا کہ یہ خدا کی طرف سے بھی تو ہو سکتا ہے، کوئی طاقت اور پاور ایسی تو ہو سکتی ہیں نا کہ جو اس کائنات سے ما ورا ہے ساری کائنات اس کے ماتح چلتی ہے اور اس کے پابند ہوتی ہے۔
دیکھیں اللہ نے قران مجید کے اندر، ایک جگہ پر یہ ارشاد فرمایا ہے: وَلَنـُذِيۡقَنَّهُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰى دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَكۡبَرِ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ۔ یعنی ہم ان کو بڑے عذاب سے پہلے بھی ایک چھوٹا اور قریبی عذاب اُن کو چکھائیں گے تاکہ وہ لوٹیں، تاکہ خدا کی طرف متوجہ ہو۔ تو جو حضرات اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ان کو سوچنا چاہیے اللہ کے بارے میں اس طرح کی موقع پر اور جو مسلمان ہیں ان کے لیے بھی کوئی انجوائمنٹ کا موقع نہیں ہوتا ہے کہ انجوائے کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر کوئی ظالم ہے اور ظالم کا جب خاتمہ ہوتا ہے یا اس کو ایک کاٹا بھی چوبھتا ہے تو ہر شخص کو اُس سے دلی اطمینان ہوتا ہے دلی خوشی ہوتی ہے وہ ایک الگ بات ہے۔
لیکن اس طرح کے جب حادثات ہوتے ہیں دنیا کے اندر، اس طرح کے جب واقعات پیش آتے ہیں تو ایک مسلمان کے لیے کوئی خوشی کا موقع نہیں ہوتا ہے، انجوائمنٹ کا موقع نہیں ہوتا ہے، انٹرٹینمنٹ کا موقع نہیں ہوتا ہے بلکہ ہم سب کے لیے یہ عبرت کا ایک عنوان ہوتا ہے عبرت کا ایک موضوع ہوتا ہے کہ ہم بھی خدا کی طرف متوجہ ہوں۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، جب اُن بستیوں سے گزرا کرتے تھے، جن بستیوں پر عذاب آیا ہوتا تو وہاں سے جلدی سے گزرجایا کرتے تھے، تو قران مجید کے اندر جو پہلی قوموں کے واقعات بیان کیے ہیں وہ اِسی لیے بیان کیے گئے ہیں تاکہ ہم لوگ عبرت حاصل کریں اور ہم اُن گناہوں کو نہ دہرائیں جو اُن لوگوں نے دہرائے تھے۔
تو ہمارے لیے بھی ہم مسلمانوں کے لیے بھی اِن تمام چیزوں کے اندر عبرت کا سامان ہوتا ہے کہ ہم بھی خدا کی طرف متوجہ ہوں آنکھیں بند کر کے نہ بیٹھے رہیں، اس لیے کہ گناہ تو ساری دنیا کے اندر اِتنے ہو رہے ہیں اور خود مسلمان بھی آگے بڑھ چڑھ کر اِتنے گناہ کر رہے ہیں کہ اللہ کے عذاب کے تو وہ بھی مستحق ہو چکے ہیں۔ تو ایسے میں ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی اللہ تبارک و تعالی کی طرف متوجہ ہو۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہم نے جو گفتگو کی ہے ان لوگوں کے بارے میں کی ہیں جو ظالم تھے یا جنہوں نے ظالم کا ساتھ دیا ظلم کا ساتھ دیا۔ البتہ ایسے حضرات جو خود مظلوم ہیں یا وہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے رہے اور ظلم کے ساتھ کھڑا ہونا اُنہوں نے گوارا نہیں کیا، جیسا کہ امریکہ میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے جب احتجاجات ہوئے تو وہ مظلوموں کے ساتھ میں کھڑے ہوئے تھے، وہ ویڈیوز وغیرہ سب آپ نے دیکھی ہوگی۔
تو ایسے لوگوں کا اگر کچھ بھی نقصان ہو رہا ہے تو ہم ان کے دکھ میں درد میں شریک ہیں، ان کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی ان کا جو بھی نقصان ہوا ہے دنیا کے اندر اُس کا بہترین بدلہ اللہ تبارک و تعالی ان کو عطا کرے اور ان کے حق میں ہم ہدایت کی بھی دعا کریں گے کہ اللہ تبارک و تعالی ان کو ہدایت سے سرفراز فرمائے تاکہ ان کی دنیا بھی بہتر ہو اور اخرت بھی ان کی بہتر سے بہتر ہو سکے۔