ربیع الاول اور جشن عید میلاد النبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شرعی حیثیت
ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا قمری مہینہ ہے۔ ربیع میں ”ر“ مفتوح (زبر کے ساتھ ) مکسور (زیر کے ساتھ ) اور ”ی“ ساکن ہے۔ ربیع کی جمع اربعاء، ارباع اور اربعہ آتی ہے۔ اسے ربیع الاول اور شہر ربیع الاول دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ ربیع الاول کو ربیع الاولیٰ بھی کہا جاتا ہے۔
ربیع الاول کا معنی
ربیع کا معنی ہے: موسم بہار یعنی سردی اور گرمی کے درمیان کا موسم، اور الاول کا معنی ہے پہلا، اسی طرح موسم بہار کی بارش کو بھی ربیع کہتے ہیں۔ لہذا ربیع الاول کا معنی ہوا پہلا موسم بہار۔
ماہ ربیع الاول کی وجہ تسمیہ
الشیخ ابو علی احمد بن محمد الاصفہانی لکھتے ہیں: کہ عرب لوگ اس مہینے میں موسم بہار گزارنے کی غرض سے گھروں میں اقامت اختیار کر لیتے تھے۔ اور عربی میں ارتباع کے معنی موسم بہار میں قیام کرنے کے ہیں۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب ابتدا میں اس مہینے کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع کی ابتدا تھی اس لیے یہ مہینہ موسم ربیع کے آغاز میں واقع ہونے کی وجہ سے ربیع الاول یعنی پہلا موسم بہار یا آغاز بہار کے نام سے مشہور ہو گیا۔
ربیع الاول کے دیگر نام
ماہ ربیع الاول کو دور جاہلیت میں ”خوان” بھی کہا جاتا تھا۔ بعض لوگ اسے "مورد” بھی کہتے تھے۔
ہمارے ہاں آج کل اسے بعض مبتدعین "ربیع النور“ بھی کہتے ہیں جس کے پیچھے عقیدہ نور من نور اللہ ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ماہ مبارک میں ولادت ہوئی اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور من نور اللہ کہنے والے بدعتیوں نے اس مہینے کا نام بھی ”ربیع النور” گھڑ لیا جو یقینا شریعت میں زیادتی کے مترادف ہے۔ هَداهُمُ الله ۔
ماہ ربیع الاول اور ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
ہمارے پیارے نبی جناب محمد رسول الله صلى اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری یقینا اللہ تعالی کی طرف سے کفر و ضلالت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کے لیے رحمت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةََ لِلْعَلَمِينَ ۔ترجمہ : اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر جہان والوں پر رحمت بناکر۔
اسی طرح ارشاد فرمایا: وَ رَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ۔ترجمہ : اور وہ (نبی) ایمان والوں کے لیے رحمت ہے۔
سورۃ آل عمران میں ارشاد باری تعالی ہے: لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیٰتِهِ وَيُزَكِّیْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلٰلٍ مُّبِيْن۔
ترجمہ : بے شک اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول خود انہی میں سے بھیجا جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ بے شک وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
ان آیاتِ قرآنی سے پتا چلتا ہے کہ دنیا میں آپ کی تشریف آوری یقینا اللہ تعالی کی طرف سے رحمت ہے۔ مگر آپ کی دنیا میں تشریف آوری کب ہوئی ؟ کون سا مبارک دن تھا، مہینہ اور سال کون سا تھا اور پھر آگے اس بابرکت مہینے کی کون سی تاریخ تھی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی ؟
ان تمام سوالوں کے جوابات کے لیے ہمیں لازمی طور پر حدیث کے ساتھ ساتھ مستند تاریخ کی طرف بھی رجوع کرنا پڑے گا۔ سید نا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزے کی بابت سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ ۔ترجمہ : یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور اسی دن میری بعثت ہوئی یا (فرمایا ) اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی۔
اس حدیث مبارکہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کا بخوبی پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسل کی ولادت باسعادت بروز سوموار ہے۔
اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی تاریخ اور حضور کی ولادت کا وقت کے حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ ماہ ربیع الاول کی وہ کون سی تاریخ تھی جس میں پاک پیغمبر علیہ السلام کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی ؟ تو اس سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ اہل علم کے اقوال مختلف ہیں جن میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا خاصہ مشکل ہے تاہم ان میں سے چند معروف اقوال درج ذیل ہیں:
پہلا قول: آپ کی ولادت با سعادت بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ یہ قول جمہور کا ہے۔
چنانچہ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جمہور کا قول مشہور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سوموار کے دن بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ یہ قول ابن اسحاق وغیرہ کا ہے۔
محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہ ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بروز سوموار بارہ ربیع الاول عام الفیل میں ہوئی۔
ابن سید الناس رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: ہمارے سردار اور نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔
ابو عبد الله محمد بن سلامہ القضاعی رحمۃ اللہ علیہ اللہ لکھتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطحا مکہ میں سوموار کی صبح بارہ ربیع الاول عام الفیل میں پیدا ہوئے۔
جشن عید میلاد النبی کی حقیقت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت عین ایمان ہے، ولادت مصطفی سے وفات تک حیات طیبہ کا ایک ایک پہلو ذکر کرنا باعث رحمت ہے، لیکن یاد رہے آپ کا ذکرِ خیر کسی خاص زمان و مکان پر موقوف نہیں بلکہ ہر آن و ہر زمان سیرت طیبہ سننا سنانا سعادت عظمی ہے،
لیکن کیا ۱۲ ربیع الاول کو محفل میلاد منعقد کرنا، بھنگڑے ڈالنا، رقص کرنا، قوالیاں گانا، شرکیہ نعتیں پڑھنا، میلادالنبی کے جلوس نکالنا اور صحابہ کا میلاد منانا خیر القرون سے ثابت ہیں؟
اگر یہ سب ثابت ہو جائیں تو چشم ما روشن دل ما شاد! پھر کسی کو اعتراض کی کیا مجال ،لیکن اگر نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ خیر القرون میں اس کا کہیں وجود نہیں ملتا، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے، نہ خلفائے راشدین اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے میلاد منانا ثابت ہے۔ حضرات تابعین عظام وتبع تابعین میں سے بھی کسی ایک سے یہ ثابت نہیں۔ تو جب زمانہ خیر القرون میں کہیں اور کسی سے بھی اس کا ذکر نہیں ملتا تو اس کے بدعت اور گمراہی ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللّٰهَ، إِنَّ اللّٰهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دے رہا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھیں۔ مطلب یہ کہ کتاب وسنت سے ہٹ کر کوئی عمل نہ کریں، اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بدعات ایجاد نہ کریں کیونکہ یہ سب اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کے مترادف ہے جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔
اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيْعُوا اللّٰهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ۔
ترجمہ :اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال باطل نہ کرو۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ رب العالمین کی بارگاہ اقدس میں صرف وہی اعمال قابل قبول ہیں جن پر اللہ اور اس کے رسول کی مہر ہو بصورت دیگر وہ عمل کتنا ہی بھلا کیوں نہ لگے اگر وہ اللہ اور رسول کی مہر سے کورا ہے تو وہ مردود ہے، ایسے عمل کی اللہ کے ہاں کوئی وقعت نہیں۔
جشن عید میلاد کا آغاز
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ جشن میلاد ایک ایسی بدعت ہے جس کا خیر القرون میں کوئی وجود اور شریعت میں کوئی اصل نہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ پھر اس عید میلاد النبی کی ابتداء کب ہوئی؟ کس نے سب سے پہلے میلاد کس نے منایا؟ اس کے اولین موجد کون لوگ تھے۔ جہاں تک ان سوالات کا تعلق ہے تو تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اس کے اولین موجود فاطمی امراء ہیں جو رافضی العقیدہ اور کٹر شیعہ تھے۔ ان بدبختوں نے چوتھی صدی ہجری میں اس کا آغاز کیا۔
شیخ علی محفوظ لکھتے ہیں: سب سے پہلے قاہرہ میں چوتھی صدی ہجری میں فاطمی خلیفوں نے عید میلا د ایجاد کی۔ انہوں نے چھ میلاد ایجاد کیے: میلاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، میلاد علی، میلاد فاطمہ میلاد حسن و حسین رضی اللہ عنہمم اور موجودہ خلیفہ کا میلاد۔ یہ میلاد اپنی رسوم کے ساتھ جاری رہے حتی کہ افضل بن امیر الجیوش نے آ کر انہیں ختم کیا۔
شیخ عبداللہ التویجری فرماتے ہیں: سب سے پہلے عید میلاد کا موجد بنی عبید القداح ہیں جو اپنے آپ کو فاطمی کہلاتے تھے اور سید نا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ حالانکہ در حقیقت یہ لوگ باطنی عقیدے کی بنیاد رکھنے والے تھے۔