تجوید القران – قرآن پاک کو صحیح پڑھنے کا بہترین طریقہ

تجوید القران – قرآن پاک کو صحیح پڑھنے کا بہترین طریقہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم قارئین کرام آج کی یہ پوسٹ بہت خاص ہونے والا ہے، میں آپ کو اس پوسٹ میں بہت ہی زبردست چیز بتانے والا ہوں، جس سے آپ قران پاک کو 100% صحیح پڑھ پائیے گا، اور یہ جلدی کوئی بتاتا بھی نہیں ہے اور نہ اس طرح کی کوئی مضمون لکھتا ہے۔

دوستو آپ سے گزارش ہے کہ اس پوسٹ کو مکمل پڑھیں اور ابھی تک ہماری ویسائٹ کو فالو نہیں کیے ہے تو تو فالو کر لیجئے۔

سامعین محترم جو چیز میں آپ کو بتانے والا ہوں وہ بہت ہی اہم اور امپورٹنٹ ہے، دوستو سورۃ الفجر کے اندر اور اسی طرح دو تین سورتوں کے اندر میں بتاؤں گا۔

محترم ناظرین سب سے پہلے دیکھیے یہاں پر سورۃ الفجر کی اس آیت میں ( ارْجِعِیْ إلٰی رَبِّکِ ) الف پورا بالکل خالی ہے، اس پر نہ زبر ہے، نہ زیر ہے، اور نہ پیش۔ لیکن جب ہم اس آیت کو پچھلی والی ایت سے ملائے بغیر پڑھتے ہیں، تو ارجعی پڑھتے ہیں، کیا پڑھتے ہیں (اِرْجِعی إلی رَبِّکِ) الف کے نیچے زیر پڑھتے ہیں۔

تو یہ زیر کیوں پڑھتے ہیں؟ الف کے نیچے زیر کیوں لگائیں گے؟ اس میں کیا وجہ ہے جو زیر لگائیں گے، زبر کیوں نہیں لگائیں گے یا پیش کیوں نہیں لگائیں گے،یہاں الف کے نیچے زیر ہی کیوں لگائیں گے؟ اسی چیز کو آپ کو سمجھنا بہت ہی ضروری ہے۔

اسی طرح کسی دوسری صورت میں ایسا لفظ آجائے، تو آپ اس کو بہت ہی آسانی کے ساتھ پڑھ سکیں گے۔ ایک یہاں پر ہے، اور دوسرا میں دکھاتا ہوں، دوستو یہاں پر دیکھیے یہ سورۂ ناس ہے،

جب اس آیت کو ہم پڑھتے ہیں تو اس طرح پڑھتے ہیں (مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ) اور الخناس پڑھ کر رک جاتے ہیں۔ تو یہاں دیکھیے الخناس کے بعد الذی کا یہ الف بالکل خالی ہے۔ اس پر نہ زبر ہے نہ زیر ہے اور نہ پیش لیکن جب ہم اس لفظ کو پڑھیں گے تو الف پر زبر پڑھیں گے۔

اس طرح الذی کے الف پر زبر ہی کیوں پڑیں گے، حالانکہ زبر تو لکھا نہیں ہے ، جب لکھا نہیں ہے تو زیر بھی پڑھ سکتے تھے یا پیش بھی پڑھ سکتے تھے زبر ہی کیوں پڑھیں گے یا پیش کیوں نہیں پڑھیں گے،

ایسے ہی ایک اور صورت دکھاتا ہوں، دوستو یہاں پر دیکھیے، یہ سورہ طہ کی آیت ہے (اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي) یہاں پر دیکھیے الف بالکل خالی ہے اور شین پر جزم آیا ہوا ہے، تو اس پر کیا لگائیں گے، تو یہ چیز آپ کو سمجھنا بہت ہی ضروری ہے، میں اپ کو سمپل ٹرک بتا دوں گا، جس سے قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی ایسی آیت یا ایسا لفظ آجائے، تو آپ اُسے بآسانی پڑھ سکیں گے، 

تو محترم ناظرین چلیے سب سے پہلے سورہ ناس سے شروع کرتے ہیں، دوستو یہ سورہ ناس ہے، (مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ) یہاں پر دیکھیے، یہ الف بالکل خالی ہے، اس میں ہم الف کے اوپر زبر کیوں لگاتے ہیں۔

تو سب سے پہلے بات سمجھ لیجیے، دیکھیے جیسے انگلش گرامر ہوتا ہے تو اُس کے کچھ رولز ہوتے ہیں، اسی طریقے سے عربی گرامر کا بھی کچھ رولز ہوتا ہے، لہذا جب بھی الف کے بعد لام آئے گا تو اِس کے اوپر یعنی پچھلی حرف پر زبر لگائیں گے، زیر یا پیش نہیں لگائیں گے، کیونکہ یہ جو الف لام ہے، یہ الف لام تعریف کے لیے آتا ہے، یہ عربی گرامر کا رولز ہے، اسلیے پوری قرآن میں جہاں کہیں بھی ایسے الفاظ آئے، جس کے شروع میں الف لام ہو، تو سمجھ جانے کا، کہ یہ الف لام تعریف کے لیے ہے، اور اُس الف پر زبر ہی پڑھیں گے۔ امید ہے کہ اتنی بات آپ سمجھ لیے ہوں گے۔

دوستو اب میں عربی گرامر کا دوسرا رولز آپ کو بتا رہا ہوں، دیکھیے یہاں پر ہم نے زبر لگائے تھے کیونکہ الف کے بعد لام آیا ہے، اور یہ لام تعریف کے لیے ہے، تو اس میں زبر لگے گا،۔ لیکن یہاں دیکھیے یہ سورۃ الفجر ہے( ارْجِعِیْ إلٰی رَبِّکِ ) یہاں الف کے بعد لام نہیں ہے بلکہ را آیا ہے، اور راء پر جزم ہے، اور جب ہم اس سے پڑھتے ہیں، تو اس طرح پڑھتے ہیں، ( اِرْجِعِیْ إلٰی رَبِّکِ ) تو راء سے پہلے الف کے نیچے ہم لوگ زیر کیوں لگاتے ہیں اس کے نیچے زیر کیوں پڑھتے ہیں

تو یہاں بھی سمجھ لیجیے کہ عربی گرامر کے رولز میں ایک رولز یہ ہے کہ یہاں الف پر اگر ہمیں اعراب لگانا ہو حرکات لگانا ہو، زبر زیر پیش لگانا ہو، تو اس کا ہم کو تیسرا لفظ دیکھنا ہوگا تیسرے لفظ میں کیا آتا ہے، کیونکہ یہاں ل نہیں آیا، لام آتا تو میں آپ کو پہلے ہی بتایا کہ یہاں ہم لوگ زبر لگاتے ،لیکن یہاں پر را آیا اور را پر جزم ہے تو ہم کو تیسرا لفظ تیسرے حرف کو دیکھنا ہے، اس پر کیا آیا ہے، ٹھیک ہے۔ تو دیکھیں یہاں تیسرا حرف ج ہے، اور ج کے نیچے زیر آیا ہے، تو ہم کو اس میں کیا لگانا ہے زیر لگانا ہے، ٹھیک ہے۔ یہاں تو ج کے نیچے زیر ہے تو ہم نے الف کے نیچے زیر لگادیا

لیکن اگر یہاں تیسرے حرف پر زیر کے بجائے زبر بھی ہوتا تو ہم یہاں زیر ہی لگائیں گے، کیونکہ عربی گرامر کا رولز ہے کہ اگر تیسرے حرف پر زبر یا زیر آئے گا تو شروع میں الف کی نیچے زیر ہی لگے گا، یہ عربی گرامر کا قاعدہ ہے۔ امید ہے کہ آپ یہاں تک سمجھ گئے ہوں گے۔

اگر الف کے بعد لام تعریف آئے گا تو ہم الف پر زبر لگائیں گے، اسی طرح اگر الف کے بعد کوئی اور حرف ہے، تو تیسرا حرف دیکھیں گے، تیسرے حرف پر کیا ہے، تیسرے حرف پر زبر یا زیر ہوگا تو الف کے نیچے زیر لگائیں گے، امید ہے کہ اتنی بات اپ سمجھ گئے ہوں۔

محترم ناظرین کرام چلیے آگے چلتے ہیں۔ یہاں دیکھیے، یہ سورہ طہ ہے۔ اس کو جب ہم پڑھتے ہیں تو اس طرح پڑھتے ہیں (اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي) یہاں پر بھی الف کے بعد ل تعریف نہیں ہے بلکہ دوسرا حرف ہے، تو الف پر زبر نہیں لگے گا۔ تو کیا لگے گا، اس کے لیے ہم تیسرے حرف میں دیکھیں گے کہ کیا آیا ہے، تو یہاں تیسرے حرف پر پیش آیا ہے، اور یہ پیش اصلی ہے عارضی نہیں ہے، تو ہم کو کیا کرنا ہے یہاں پر پیش لگانا ہے، الف کے اوپر کیا لگانا ہے پیش لگانا

یہی عربی گرامر کا رولز ہے ٹھیک ہے، اگر یہاں پر زبر یا زیر ہوتا تو ہم کو یہاں پر زیر لگانا پڑتا، لیکن یہاں پر پیش آیا ہے، اور پیش بھی اصلی ہے عارضی نہیں ہے، تو ہم کو پیش لگانا ہے، اگر الف کے بعد لام تعریف آجاتا، تو ہم زبر لگاتے، تو یہ چیز آپ کو سمجھ میں آہی گیا ہوگا،

محترم ناظرین کرام میں نے اپ کو تین چیزیں بتائی، الف کے بعد اگر لام تعریف آجائے تو زبر لگانا ہے، الف کے بعد اگر لام نہیں آیا تو ہم کو تیسرا لفظ یعنی تیسرے حرف کو دیکھنا ہے، کہ اس پر کیا آیا ہے، اگر پیش آیا ہے، اور وہ پیش اصلی ہو، تو الف پر پیش لگانا ہے، اگر تیسرے حرف پر تیسرے ورڈ پر زبر یا زیر آئے تو ہم کو زیر ہی لگانا ہے، ٹھیک ہے، یہ عربی گرامر کا قاعدہ ہے۔

محترم ناظرین اگر اپ کو کچھ بھی کنفیوژن ہو کچھ بھی سوال ہو تو بے جھجک کمنٹ باکس میں لکھیے میں انشاءاللہ فورا جواب دینے کی کوشش کروں گا ٹھیک ہے۔

اور اس پوسٹ سے اگر آپ کو ذرا سا بھی فائدہ پہنچاہو، تو پلیز اس ویڈیو کو زیادہ سے زیادہ اپنے دوست و احباب کو فیملی فرینڈز کو شیر کیجیے تاکہ وہ بھی عربی گرامر کے جو رولز ہیں اس سے واقف ہوجائے، جسے قرآن پاک کو پڑھنے میں کوئی دشواری نہ ہو اور آپ کو بھی اس کا ثواب ملتا رہے۔ شکریہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

Leave a Comment