اسلام کیا ہے؟ اور اسلام کیا سکھاتا ہے، بہترین تقریر – Islam Kya Hai in Urdu
اسلام نام ہے زندگی میں ہر جگہ اور ہر وقت چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے ، لین دین کرتے وقت یہ خیال رکھنا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہے؟ اور پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کس طرح کیا ہے؟
اسلام کیا ہے-Islam Kya Hai in Urdu
پیارے اسلامی بھائیوں! آج کے دور میں سیاسی رہنماؤں، مفکروں، ادیبوں، کالم نگاروں، دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں اور مقررین کی زبان سے قومی یکجہتی کا لفظ اکثر سننے کو ملتا ہے، تو کیوں نہ ہم بھی قومی یکجھتی پر اسلام کی روشنی میں بحث کریں اور دیکھیں اور دیکھیں کہ اسلام اس موضوع پر کیا کہتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کا اصول کیا ہے؟
پیارے بھائیو! قومی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ مختلف قوموں اور نسلوں کے لوگوں کو ایک نظریہ پر اکٹھا کیا جائے تاکہ ان کے اندر اتحاد اور اجتماعیت کی کیفیت پیدا ہو اور تصادم کی صورت حال پیدا نہ ہو، اختلافات پیدا نہ ہوں اور تنازعات نہ ابھریں
یعنی ہم قومی یکجہتی کو اتحاد الامم کہہ سکتے ہیں اور جب سیاسی نظریے کی بنیاد پر قومی یکجہتی کی بات آتی ہے تو سیاسی رہنما عموماً اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ مختلف خیالات اور نظریات کے لوگ ایک طرز زندگی اپنالے اور ایک بن کر رہیں۔ اس کے لئے یکساں سول کوڈ کا نام لیا جاتا ہے، تو کبھی یکساں یونیفارم کی بات ہوتی ہے۔
لیکن اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قومی اتحاد کا فطری طریقہ اسلام کے اصول وحدانیت میں نظر آتا ہے، کسی دوسرے مذہب کی تعلیمات میں نظر نہیں آتی۔ (دین کیا ہے)
اگر ہم قومی اتحاد اور ہندو مذہب کی بات کریں تو سمجھ میں آئے گا کہ اس مذہب کی بنیاد فرقہ پرستی اور طبقاتی پر نظام ہے، اس مذہب نے لوگوں میں تفرقہ قائم کرکے انہیں متحد ہونے سے روک دیا ہے، پھر اتحاد کیسے ہوگا؟
ہندو مت نے انسان کے چار طبقے مقرر کئے ہیں،
(1) برهمن (۲) چھتری (۳) ویش (۴) شودر۔
سب سے اونچی ذات برہمن ہے جو مذہبی امور کا ذمہ دار ہے، چھتری حکومت کے ذمہ دار ہیں، ویشی کے سر پر کاشتکار ہیں اور شودر سب سے ذلیل ہیں۔
برہمن برہما کے سر سے پیدا ہوئے ہیں، چھتری سینے سے، ویش پیٹ سے اور شودر پاؤں سے پیدا ہوئے ہیں، جب دھرم ہی آپس میں بٹ چکے ہیں تو سب ایک سمت میں کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں، ایک جہت کیسے رہ سکتے ہیں؟ ایک نظریہ پر کیسے متحد رہ سکتے ہیں؟
لیکن دین اسلام انسان کو تقسیم نہیں کرتا، وہ قومیت اور حب الوطنی کو معیار کے طور پر متعین نہیں کرتا، وہ رنگ و روپ کی تفریق نہیں کرتا، ملک اور وطن کی تفریق کو قبول نہیں کرتا، بلکہ انسان کو ایک فرد کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور ایک ماں باپ کی اولاد کہہ کر خطاب کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ۔ (پ ۲۶ ع ۴) اے لوگو ہم نے تم کو ایک مردوزن سے پیدا کیا ہے، اور تم کو خاندان وقبائل میں تقسیم کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم میں سب سے معزز اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے متقی ہے،
اور اسی حقیقت کو حدیث پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے۔كلكم من آدم وآدم من تراب لا فضل لعربي على أعجمي، ولا لأبيض على أسود، ولا لأسود على أبيض إلا بالتقوى، (مسند احمد) کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، کسی عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر، کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ذریعے۔
برادران ملت! اسلام نے تو طبقاتی نظام کی جڑ ہی کاٹ دی، نسلی تفاوت کی بنیاد ہی ڈھادی، قومی تفاخر کی اصل ہی ختم کر دی ، اس کے بعد اس نے تمام انسان کو ایک جہت، ایک سمت ، ایک نظر یہ، ایک عقیدہ، ایک فکر کی طرف بلایا کہ انسان ہونے کے ناطے تم کو متحد ہو کر رہنے کے لئے تو حید ہی سب سے جامع طریقہ ہے، ایک خدا کی الوہیت کو تسلیم کر لو، اور ایک عقیدہ پر جم جاؤ اور ایک مذھب کو مان لو، تمہارے اندر یکجہتی پیدا ہو جائے گی، تم متحد ہو جاؤ گے، تم بنیان مرصوص بن جاؤ گے، جسدِ واحد بن جاؤ گے، تمام اختلافات ختم ہو جائیں گے، تمام جھگڑے مٹ جائیں گے۔( اسلام کی بنیادی تعلیمات)
برادرانِ ملت قومی یکجہتی سے متعلق جامع اصول اسکے سوا ممکن نہیں کہ دنیا کے تمام انسانوں کو بلا تفریق رنگ ونسل، بلا امتیاز زمان و مکان ایک سمت عطا کر دی جائے، ایک مرکز پر جمع کر دیا جائے، ایک خیال پر جما دیا جائے ، ایک مقصد پر متحد کر دی جائے، ایک محور پر لاکھڑا کر دیا جائے، وحدت و مساوات، اخوت ومحبت، اتحاد و اتفاق کا ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ ہر فرد دوسرے فرد کا ہم خیال بن جائے، افکار و نظریات، خیالات و رحجانات، تصورات و احساسات تک میں یکسانیت پیدا ہوجائے،
مگر اسلام نے ایسا کردکھایا، اس کے روح پرور پیغام وحدت و توحید نے قومی یکجہتی پیدا کردی، فکری پکجہتی پیدا کردی، عملی یکجہتی پیدا کردی، تمدنی یکجتی پیدا کردی ، ثقافتی یکجہتی پیدا کردی ، ایمانی یکجہتی پیدا کردی، اور عرب وعجم ، چین وفارس، ایرانی و طورآنی ، مصری و سوڈانی ، رومی دیونانی کو ایک امت بنا دیا، ایک پیکر میں ڈھال دیا، ارشاد باری: إن هذه أمتكم أمة واحدة وأنا ربكم فاتقون، کا جانفزا، روح پرور، ایمان افروز، حیات بخش اعلان عام کر دیا۔
برادرانِ ملت یہی اسلام کی وہ عالمگیر اخوت اور دعوتِ اسلام کی وحدت تھی جس نے زمین کے دور دراز گوشوں کو ایک کر دیا تھا، اسلام نے ریگستانِ عرب میں ظہور کیا مگر صحراء افریقہ یں اسکی پکار بلند ہوئی ، اس کی صدا جبلِ بو قبیس کی گھاٹیوں سے اٹھی مگر دیوار چین سے صدائے اشهد ان لا اله الا اللہ کی بازگشت گونجی، آفتابِ رسالت فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا مگر اس کی کرنوں نے یورپ کو منور کیا، پیغام توحید بلدِ امین سے نشر ہوا اور اس کی صدا ہندوستان تک پہونچی،
اللہ اکبر کی آواز صحرائے حجاز سے گونجی تھی مگر جبلِ طارق کی چوٹیوں سے ٹکرائی، وحدت ومساوات کا عمل وادی بطحاء سے شروع ہوا تھا اور اس کا دائرہ عمل مشرق و مغرب تک پھیلتا چلا گیا، قومی یکجہتی کی ایک نئی تاریخ کا آغاز ہوا اور اس کے صفحات طویل ہوتے گئے، اسلام نے اقوام و ملک کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کر دیا، اس نے امیر و غریب حاکم و محکوم، مالک و مزدور، غلام و آقا، گورے کالے، عربیعجمی، ہندی چینی کے فرق کو مٹاکر ایک امت کو جنم دیا جس کا ترانہ وحدانیت لا الہ الا اللہ تھا، جس کا نعرہ مساوات ، إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃ تھا،
اسلام نے دنیا کے تمام انسانوں کو ایمان اور توحید کی بنیاد پر ایک جھنڈے کے نیچے جمع کیا، ان کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ قائم کیا، ایک ربط پیدا کیا، ایک ایسا بندھن پیدا کیا جس سے دنیا کے تمام رشتے ٹوٹ سکتے ہیں، لیکن یہ رشتہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔ یہ ممکن ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے سے روٹھ جائے، بعید نہیں کہ کوئی ماں بچے کو اپنی گود سے جدا کر دے، ممکن ہے ایک بھائی دوسرے بھائی کا دشمن ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے بھائی چارہ اور نسل کے تمام رشتے ٹوٹ جائیں، لیکن وہ رشتہ جو چین کے مسلمانوں کو افریقہ کے مسلمانوں سے، عرب کے اعرابی کو تاتاریوں کے چرواہے سے، ہندوستان کے نو مسلموں کو مکہ کے قریش سے جوڑتا ہے دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اسے توڑ سکے، ان زنجیروں کو کاٹ دے جو خدا کے ہاتھوں نے ہمیشہ کے لیے انسانوں کے دلوں پر جکڑ دی ہیں، قوموں کو متحد کیا، نسلوں کو ملا دیا، ملتوں کو ایک کردیا ہے اور سب کو ایک جہت پر لگا دیا ہے، ممکن نہیں کہ دنیا کی کوئی سپر طاقت اسے توڑ دے۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمین۔