دارالعلوم دیوبند : دارالعلوم دیوبند کی تاریخ

دارالعلوم دیوبند : دارالعلوم دیوبند کی تاریخ

پیارے اسلامی بھائیوں میں ہوں مولانا اسعد اور میں اپنی ویب سائٹ پر آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ محترم قارئینِ اس پوسٹ میں دارالعلوم دیوبند کی تاریخ سے متعلق لکھا گیا ہے۔ نیز اس پوسٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا قیام کب عمل میں آیا،نیز دارالعلوم دیوبند کی بنیاد کس تاریخ کو رکھی گئی، اور تاریخ دیوبند کیا ہے یعنی دیوبند نام سے پہلے دیوبند کا نام کیا تھا؟ 

تاریخ دارالعلوم دیوبند

قیام دارالعلوم دیوبند:۔۱۸۵۷ء کے خونیں انقلاب میں جب دہلی اجڑی اور اس کی سیاسی بساط الٹ گئی تو دہلی کی علمی مرکزیت بھی ختم ہو گئی اور علم و دانش کا کارواں وہاں سے رخت سفر باندھنے پر مجبور ہو گیا۔ اس وقت کے اہل اللہ اور خصوصیت سے ان بزرگوں کو، جو اس خونیں انقلاب سے خود بھی گزر چکے تھے ، یہ فکر و اضطراب لاحق ہوا کہ علم و معرفت کے اس کا رواں کو کہاں ٹھکانہ دیا جائے اور ہندوستان میں بے سہارا مسلمانوں کے دین و ایمان کو سنبھالنے کے لیے کیا صورت اختیار کی جائے؟ حالات کی نزاکت کا فطری تقاضا بھی تھا کہ دین کا درد رکھنے والے علماء وصلحاء اس امر پر نہایت جاں سوزی اور پورے اخلاص کے ساتھ غور کریں۔

چناں چہ اس وقت ان حضرات کی کوششوں کا بنیادی نقطہ نظریہ قرار پایا کہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار رکھنے اور ان کی علی شیرازہ بندی کے لیے ایک دینی و علمی درس گاہ کا قیام ناگزیر ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے اولین صدر المدرسین حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی کی تقریر سے اس پس منظر کی خوب وضاحت ہوتی ہے جو انھوں نے ۱۳۰۱ھ/۱۸۸۴ء کے جلسہ انعام میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا: اس مدرسہ کی بناء محض علوم دین کے احیاء کے لیے ہوئی ، یہ وہ زمانہ تھا جس میں بعد غدر ہندوستان نے تھوڑا وقت گزار لیا تھا اور مجموعہ حال کے دیکھنے سے یوں نظر آتا تھا کہ اب علم دین کا خاتمہ ہے، نہ کوئی پڑھ سکے نہ پڑھا سکے، بڑے بڑے شہر کہ مرکز اس دائرہ کے تھے خراب ہو گئے تھے، علماء پریشان، کتب مفقود، جمعیت ندارد، اگر کسی قلب میں شوق علم اور طلب کی ہمت ہوئی تو کہاں جائے اور کس سے سیکھے اور یوں نظر آتا تھا کہ بیس تیس برس میں جو علماء بقید حیات ہیں اپنے وطن اصلی جنت کو سدھار جائیں گے ، تب کوئی اتنا بتلانے والا بھی نہ رہے گا کہ وضو کے کتنے فرض اور نماز میں کیا واجب ہے؟ ایسی پریشانی اور مایوسی اور نا امیدی میں فضل الہی نے جوش مارا اور رحمت خداوندی کا دریا امنڈ آیا اور ابر فیض قدرت کامل موسلا دھار برسا اور اپنے بندگان مقبول کو اس کام کی طرف متوجہ فرمایا، اور اپنا ابر کرم اس مدرسہ کی بناء میں ظاہر فرما دیا۔

دارالعلوم دیوبند کی بنیاد

البتہ مدرسہ کہاں قائم ہو، اس سلسلے میں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مکتو بہ سوانح حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دیو بند میں مدرسہ کے قیام کا فیصلہ ہوا، فرماتے ہیں:

و ہی زمانہ تھا کہ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی۔ مولوی فضل الرحمن اور مولوی ذوالفقار علی صاحب اور حاجی محمد عابد صاحب نے یہ تجویز کی کہ ایک مدرسہ دیوبند میں قائم کریں۔ مدرس کے لیے تنخواہ پندرہ روپے تجویز ہوئے اور چندہ شروع ہوا۔ چند ہی روز گذرے کہ چند ہی روز گزرے کہ چندہ کو افزونی ہوئی اور مدرس بڑھائے گئے اور مکتب فارسی و حافظ قرآن مقرر ہوئے ، اور کتب خانہ جمع ہوا۔

مولوی محمد قاسم صاحب شروع مدرسہ میں دیوبند آئے اور پھر ہر طرح اس مدرسہ کے سر پرست ہوئے۔ دارالعلوم دیوبند کے تاسیسی رکن حضرت مولانا ذوالفقار علی دیوبندی نے اپنے عربی رسالہ الہدیۃ السنیۃ فی ذکر المدرسة الاسلامية الدیوبندیہ میں لکھا ہے کہ جب اللہ تعالی نے اس خطے میں خیر برپا کرنے اور دینی علوم وفنون کے احیاء کے ذریعے بندوں کی رشد و ہدایت کا ارادہ کیا، تو الحاج سیدمحمد عابد صاحب کے دل میں اس مدرسے کے قیام کا خیال القاء فرمایا۔ پھر کچھ سطور کے بعد لکھتے ہیں کہ پھر اللہ تعالی نے اس مدرسہ کے استحکام اور علوم دینیہ کے احیاء کے لیے شیخ اکبر مولانامحمد قاسم نانوتوی کو منتخب فرمایا۔

دارالعلوم دیوبند کے لیےتحریک چندہ

سوانح قاسمی میں سوانح مخطوطہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ چندہ کی فراہمی کے سلسلے میں سب سے پہلے جس شخصیت نے عملی اقدام کیا وہ حضرت حاجی عابد حسین صاحب تھے۔ ایک دن بوقت اشراق رومال کی جھولی بنا کر آپ نے اس میں تین روپے ڈالے اور چھتہ مسجد سے تن تنہا مولانا مہتاب علی کے پاس تشریف لائے جنھوں نے چھ روپے عنایت کیے اور دعا کی۔ پھر بارہ روپے مولانا فضل الرحمن صاحب نے اور چھ روپے حاجی فضل حق صاحب نے دیئے۔

پھر وہاں سے اٹھ کر آپ مولانا ذوالفقارعلی کے پاس آئے اور انھوں نے فورا بارہ روپے دیئے اور حسن اتفاق سے اس وقت سید ذوالفقارعلی ثانی دیوبندی وہاں موجود تھے، ان کی طرف سے بھی بارہ روپے عنایت کیے۔ وہاں سے اٹھ کر یہ درویش بادشاہ صفت محلہ ابوالبرکات پہنچے، دو سورو پے جمع ہو گئے اور شام تک تین سو روپے۔ یہ قصہ بروز جمعہ دوم ماه ذوالقعد ۱۲۸۲ھ میں پیش آیا۔

دارالعلوم دیوبند  مدرسہ کا افتتاح

بالآخر ۱۵/ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ بروز پنجشنبہ مطابق ۳۱/ مئی ۱۸۶۶ء کو قصبہ دیوبند کی مسجد چھتہ میں نہایت سادگی کے ساتھ مدرسہ عربی کا افتتاح عمل میں آیا۔ تدریس کے لیے سب سے پہلے جس استاذ کو مقرر کیا گیا وہ حضرت مولانا ملامحمد محمود دیو بندی تھے اور اس مدرسہ کے پہلے طالب علم کا نام محمود حسن تھا جو بعد میں شیخ الہند کے نام سے پوری دنیا میں جانا پہچانا گیا۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس درس گاہ کے سب سے پہلے استاذ اور شاگرد دونوں کا نام محمود تھا۔ اس بے سرو سامانی کے ساتھ اس مدرسہ کا افتتاح عمل میں آیا کہ نہ کوئی عمارت موجود تھی اور نہ طلبہ کی جماعت۔ اگر چہ بظاہر یہ ایک مدرسہ کا بہت ہی مختصر اور محدود پیمانے پر افتتاح تھا، مگر در حقیقت یہ ہندوستان میں دینی تعلیم اور اسلامی دعوت کی ایک عظیم تحریک کا آغاز تھا۔

دارالعلوم دیوبند کیے لیے اعلان چندہ

دارالعلوم دیوبند کے قیام مدرسہ کے چار دن بعد 19/ محرم الحرام ۱۲۸۳ء بروز دوشنبہ حاجی سید فضل حق صاحب (سر براہ کار مدرسہ ) کی جانب سے ایک اشتہار شائع کیا گیا جس میں قیام مدرسہ کا اعلان، چندہ کی اپیل اور مدرسہ کے منصوبوں کا اظہار کیا گیا تھا۔ اشتہار کا متن یہ تھا:

اشتہار

الحمد للہ کہ مقام قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور میں اکثر اہل ہمت نے جمع ہو کر کسی قدر چندہ جمع کیا اور ایک مدرسہ عربی پندرہ تاریخ محرم الحرام ۱۲۸۳ ہجری سے جاری ہوا اور مولوی محمد محمود صاحب بالفعل بمشاہرہ ۵ا/ روپے ماہوار مقرر ہوئے، چوں کہ لیاقت مولوی صاحب کی بہت کچھ ہے اور تنخواہ بسبب قلت چندہ کے کم ، ارادہ مہتممان مدرسہ کا ہے کہ بشرط وصول زر چندہ قابل اطمینان جس کی امید کر رکھی ہے تنخواہ مولوی صاحب موصوف کی زیادہ کی جاوے اور ایک مدرس فارسی و ریاضی کا مقرر ہو۔

جملہ اہل ہمت و خیر خواہان ہند خصوصاً مسلمانان سکنائے دیو بند و قرب و جوار پر واضح ہو کہ جولوگ اب تک شریک چندہ نہیں ہوئے بدل شریک ہو کر امداد کافی دیویں اور واضح ہو کہ چندہ مفصلہ فہرست ہذا کے کہ جس کی میزان کل ۴۰۱ روپئے ۸ آنے ہے دوسرا چندہ واسطے خوراک و مدد خرج طلبہ بیرونجات کے جمع ہوا ہے اور سولہ طالب علموں کا صرف جمع ہو گیا ہے اور ان شاء اللہ روز بروز جمع ہوتا جاتا ہے اوس میں سے طلبہ بیر و نجات کو کھانا پکا پکایا اور مکان رہنے کو ملے گا۔ کتابوں کا بند و بست بھی متعاقب ہوگا۔

نام مہتممان کے درج ذیل ہیں ، جن صاحبوں کو روپیہ چندہ بھیجنا منظور ہو تو بنام اون کے بذریعہ خط بیرنگ ارسال فرمادیں۔ رسید اوس کی بصیغہ پیڈ بھیجی جائے گی ۔ فقط حاجی عابد حسین صاحب، مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی ، مولوی مہتاب علی صاحب، مولوی ذوالفقار علی صاحب ، مولوی فضل الرحمن صاحب منشی فضل حق ، شیخ نہال احمد صاحب العبد فضل حق، سر براه کار مدرسہ عربی و فارسی و ریاضی قصبہ دیو بند ضلع سہارنپور تحریر بتاریخ ۱۹/ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ روز دوشنبہ۔

یہ اشتہار جہاں ایک طرف چندہ کی اپیل تھی ، وہیں دوسری طرف اس میں مدرسہ عربی دیو بند کے منصوبوں کا اعلان تھا۔ قیام مدرسہ کے محض چار دنوں بعد شائع ہونے والے اس اشتہار میں مدرسین کے اضافہ، اساتذہ کی تنخواہوں میں معقول اضافہ، طلبہ کے لیے پکے پکائے کھانے کا نظم ، دار الاقامہ کی سہولت اور کتب خانہ کی ضرورت کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان حضرات کے ذہن میں ایک بڑے مدرسہ کا خاکہ موجود تھا۔ اس تحریر کے بعد اُن ۵۴ حضرات کے اسمائے گرامی کی فہرست ہے جنھوں نے پہلے مرحلے میں قیام مدرسہ کے لیے تعاون میں حصہ لیا تھا۔

دارالعلوم دیوبند کے اراکین تاسیسی

دستیاب معلومات کے مطابق قیام مدرسہ کے محرک اول حضرت حاجی عابد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے اور وہی مدرسہ کے مہتم اول بھی ہوئے ، جب کہ مدرسہ کی ترقی و تعمیر میں سب سے نمایاں خدمات حضرت مولا نا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہیں اور وہی اپنی علمی عظمت کی بنیاد پر سرپرست مدرسہ قرار پائے، دار العلوم کے اولین فضلاء، خصوصاً حضرت شیخ الہند نے انہی سے حدیث کی تکمیل کی اور بعد میں ان کا سلسلہ سند سب سے زیادہ عام ہوا۔

ان دو حضرات کے علاوہ حضرت مولا نا مہتاب علی صاحب ، حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب اور حضرت شیخ نہال احمد صاحب مسلسل مدرسہ کے حق میں ساعی اور متحرک رہے، جب کہ حضرت مولانا زو الفقار علی صاحب اور حضرت حاجی سید فضل حق صاحب نظم و انتظام میں عملاً باضابطہ شریک رہے اور آخر الذکر بعد میں مہتم بھی مقرر ہوئے۔ حضرت مولانامحمد یعقوب نانوتوی دار العلوم کے پہلے صدر مدرس مقرر ہوئے اور دارالعلوم کی تعلیمی ترقی میں اہم خدمات انجام دیں۔ اسی طرح حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے حضرت نانوتوی کے بعد دار العلوم کی سر پرستی قبول فرمائی اور اس شجر طوبی کی آبیاری کی۔

دیو بند اور اہل دیوبند

دارالعلوم دیوبند کی یہ نعمت جس سرزمین کو حاصل ہوئی وہ قصبہ دیو بند تھا، جو ضلع سہارن پور کا سب سے بڑا قصبہ اور تحصیل کا صدر مقام تھا۔ دیوبند اگر چہ اپنی آبادی کی وسعت یا صنعت و تجارت کے لحاظ سے کوئی بڑا اور مرکزی شہر نہیں مگر اپنی علمی اور مذہبی تاریخ کی وجہ سے آج دنیا بھر میں مشہور ہے۔

تاریخ دیوبند

دہلی سے جانبِ شمال تقریبا ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دوری پر واقع دیوبند ایک قدیم بستی ہے جو دوآبہ ( گنگا و جمنا ) کے سرسبز و شاداب خطہ کے درمیان آباد ہے۔ بعض مؤرخین نے تخمینا دو ہزار سال پرانی آبادی ہونا اور بعض نے طوفان نوح کے بعد آباد ہونا بیان کیا ہے۔ تاہم پرانی عمارتوں اور کتبوں سے اس قدر یقینی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ابتدائی عہد سے پہلے سے آباد ہے۔

تاریخ دیوبند:دوآبہ  یعنی گنگا وجمنا کا علاقہ قدیم زمانے سے ہندوستان کی تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔ متعدد تاریخی کتابوں میں اس بستی کو دیبن سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں قدیم زمانے سے ہندؤں کا ایک معروف مندر دیوی کنڈ ہے جو بن یعنی جنگل میں واقع تھا، اس کی مناسبت سے اس آبادی کو دیوی بن یا دیبن کہا جاتا تھا جو بعد میں کثرت استعمال سے دیوبند ہو گیا۔

مسلم عہد حکومت کے بہت سے آثار دیوبند میں پائے جاتے ہیں۔ دیوبند کی متعدد مسجدیں مسلم عہد حکومت میں تعمیر ہوئیں جس میں مسجد قلعہ سلطان سکندر لودھی (۱۴۸۸ تا ۱۵۱۷ء) ، مسجد خانقاہ شہنشاہ اکبر (۱۵۵۶ تا ۱۶۰۵ء) مسجد ابوالمعالی شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر (۱۶۵۷ تا ۱۷۰۶ء) کے عہد کی یادگار ہیں۔

ان کے علاوہ آدینی مسجد کے بارے میں اندازہ ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی اور مسجد چھتہ چودہویں صدی عیسوی میں عہد تغلق میں تعمیر ہوئی۔ دیو بند میں مغل شہنشاہ اکبر کے عہد حکومت میں پختہ اینٹوں کا بنا ہوا قلعہ بھی تھا، ابوالفضل نے آئین اکبری میں اس کا ذکر کیا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے قیام اور اس کی ترقی میں اہل دیو بند نے جس فراغ حوصلگی، فیاضی اور علم دوستی کا ثبوت دیا وہ بے نظیر ہے۔ دیو بند کے اہل خیر نے بیرونی طلبہ کے قیام و طعام اور دوسری ضروریات کی تکمیل میں جس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دارالعلوم کے لیے ترقی کے مواقع بہم پہنچائے وہ اہل دیوبند کا زبردست کارنامہ ہے۔ دیو بند کے تمام مسلمان باشندوں نے دار العلوم کا یکساں گرم جوشی کے ساتھ خیر مقدم کیا اور ہر شخص نے اپنی بساط سے بڑھ کر دار العلوم اور طلبہ کی امداد میں حصہ لیا۔

حضرت نانوتوی نے تقسیم اسناد کے جلسے میں باشندگان دیو بند کے ایثار و قربانی کی تعریف کرتے ہوئے اپنی تقریر میں فرمایا: اہل دیوبند نے وہ کام کیا ہے کہ قیامت تک صفحۂ روزگار پر ان کی یادگار رہے گی اور فرمایا کہ جتنا اور سب کو ( دیوبند سے باہر والوں کو ) اس کار خیر کا ثواب ملے گا اتناہی تنہا دیو بند والوں کو ملے گا عین مطابق قول نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : من سن ستہ حسنہ فله أجرھا و أجر من عمل بھا۔

دین اسلام کے عنوان پر ایمان افروز تقریر

2 thoughts on “دارالعلوم دیوبند : دارالعلوم دیوبند کی تاریخ”

Leave a Comment