اسلام پر اعتراضات کے عقلی و نقلی جوابات | Mufti Yasir Nadeem Al Wajidi

اسلام پر اعتراضات کے عقلی و نقلی جوابات
 
سوال نمبر ۱

کائنات کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالی کیا کر رہا تھا؟

جواب

وقت بھی مخلوق ہے۔

نیز اگر یہ کہا جائے کہ فلاں کام کر رہا تھا، تو سوال ہوگا کہ اس سے پہلے کیا کر رہا تھا، پھر اس سے پہلے کیا کر رہا تھا، اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ کیونکہ خدا کی ذات لامتناہی ہے، لہذا اس کے افعال بھی لامتناہی ہیں۔ لامتناہی افعال کو بیان کرنے کے لیے لامتناہی عمر چاہیے، جو نہ آپ کے پاس ہے اور نہ میرے پاس۔ اس لیے آپ کا سوال ہی غلط ہے۔
انسان کے پاس عقلی اعتبار سے اس سوال کے جواب میں تفویض (سرینڈر ) کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
یاسر ندیم الواجدی
 
سوال نمبر۲

اگر اللہ کا علم لا محدود ہے تو کیا وہ جانتا ہے کہ اس کا علم کتنا ہے؟

جواب
یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے کوئی پوچھے کہ گول دائرے کا کونا کہاں ہے؟ سرکل ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس میں کونا نہیں ہے۔
جب یہ مان لیا گیا کہ اللہ کا علم لا محدود ہے، تو مندرجہ بالا سوال اللہ کے علم کو محدود کر دیتا ہے، اور لامحدود کبھی بھی محدود نہیں ہوتا۔ لامحدود کی مقدار کے بارے میں سوال کرنا ہی غلط ہے۔
یاسر ندیم الواجدی
 
سوال نمبر ۳

جب اللہ نے ہر چیز طے کردی تو انسان بہر حال مجبور ہوا۔ یہ خلق اور کسب کی تقسیم محض تسلی کا سامان ہے۔

جواب
علم الٰہی عام ہے اور تقدیر خاص۔ تقدیر کا مطلب ہے کہ ہر ہونے والی چیز اللہ کے علم میں ہے، کسی شخص کے بارے میں یقینی طور پر جاننے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شخص مجبور ہے۔ جب آپ کسی سے بات کرتے ہیں تو یقینی طور پر جانتے ہیں کہ وہ آپ کو سن رہا ہے، لیکن اس کا سننا اپنے اختیار سے ہوتا ہے۔ جب آپ کے علم یقینی سے آپ کا مخاطب مجبور نہیں ہوا تو اللہ کے علم یقینی سے جو کہ تمام زمانوں کو محیط ہے انسان کیسے مجبور ہوسکتا ہے۔
رہی بات علم الٰہی کی تو اس کے عموم میں یہ بھی شامل ہے کہ جو چیز نہیں ہوگی اور اگر ہوجائے تو کیسی ہوگی۔ مثلا اگر حضرت خضر کے ذریعے قتل کیا جانے والا لڑکا زندہ رہتا تو کیسا ہوتا۔
یاسر ندیم الواجدی
 
سوال نمبر ۴
قرآن کہتا ہے کہ: وَمَا تَشَآءُونَ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ۔
تو جو انسان اتنا مجبور ہو کہ اس کا ارادہ بھی اسی وقت کام کرے جب کہ خدا چاہے، ورنہ وہ ارادہ بھی نہ کر سکے تو پھر وہ با اختیار کیسے ہوا؟
جواب
یہ سوال آیت کی غلط تشریح کی بنا پر ہوا ہے۔ آیت کا واضح مطلب یہ ہے کہ تمہارے اندر قوت ارادہ اس لیے ہے کہ خدا نے ایسا چاہا کہ تمہارے اندر یہ قوت ہو، خدا اگر نہ چاہتا، تو یہ قوت تمہارے اندر پیدا نہیں ہوسکتی تھی۔ اللہ نے یہ چاہا کہ پہاڑوں، دریاؤں اور بادلوں وغیرہ میں یہ قوت ارادہ پیدا نہ ہو، سو پیدا نہیں ہوئی۔ انسانوں میں قوت ارادہ کی تخلیق سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو با اختیار بنایا گیا ہے، اس کا برعکس ثابت نہیں ہوتا۔
یاسر ندیم الواجدی
 
سوال نمبر ۵
جب سب کام اللہ کے حکم سے ہوتے ہیں تو نیکی اور گناہ دونوں اللہ کے حکم سے ہوں گے، تو پھر نیکی پر ثواب اور گناہ پر سزا کا کیا مطلب؟
جواب
یہ سوال درست نہیں ہے۔ ایک استاذ اپنے طلباء کو ایک سوال دے جس کے چار آپشنز ہوں، تین غلط ہوں اور ایک صحیح، تو یہ ایک آئڈیل پرچہ امتحان ہوگا۔ اگر چاروں صحیح ہوں یا چاروں غلط ہوں تو طالب علم مجبور ہے کہ وہ کسی صحیح یا کسی غلط آپشن کا ہی انتخاب کرے۔ لیکن تین غلط اور ایک صحیح ہونے کی صورت میں اس کو اختیار ہے کہ وہ صحیح کا انتخاب کرے اور استاد کی طرف سے یہی توقع بھی کی جاتی ہے۔
خدا خالق خیر بھی ہے اور خالق شر بھی۔ اس کا حکم ہے کہ خیر اختیار کرو، لہذا خیراورشر کے وجود کا تعلق خدا کی تخلیق سے ہے۔ خدا کی رضا یہ ہے کہ خیر اختیار کرو اور شر سے بچو۔ جس کو خدا کی رضا مندی حاصل اس کو ثواب ملے گا بصورت دیگر سزا مقدر ہوسکتی ہے۔
یاسر ندیم الواجدی
 
 

 

Leave a Comment