السلام – السلام عليكم ورحمة الله وبركاته – Assalamu Alaikum
جب کوئی سلام کرے اور السلام علیکم کہے تو اسکو جواب دینا واجب ہے، اور بہتر جواب یہ ہے کہ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا جائے، اگر سلام کرنے والا السلام علیکم رحمۃ اللہ کہے تو اس کے جواب میں وبرکاتہ کا اضافہ کیا جائے۔ اور سلام کے آداب میں سے یہ ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے پیدل سوار کو سلام کرے تنہا جماعت کو سلام کرے۔
اَلحمدُ لِلّٰه رَبِّ الْعالَمِيْن، وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلامُ عَلىٰ سَیِّدِ الْاَنْبِياءِ وَالْمُرْسَلِيْن مُحَمَّد وَّاٰلِه وَاَصْحابِه اَجْمَعِيْن وَمَنْ تَبِعَهُمْ بِاِحْسَان اِلىٰ يَوْمِ الدِّيْن اما بعد : فَقَد قَالَ اللّٰهُ تعالىٰ: وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوْا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْرُدُّوْهَا۔
اسلام میں سلام کی اہمیت
عزیزانِ گرامی ! مل جل کر رہنا انسان کی طبیعت ہے۔ جب دو انسان آپس میں ملتے ہیں توان کے درمیان کچھ کلماتِ متبادلہ ہوتے ہیں۔کچھ باتیں ہوتی ہیں اور وہ کلمات دونوں کے دلی جذبات و احساسات کی عکاسی کرتے ہیں، افکار ونظریات کی ترجمانی کرتے ہیں کہ دونوں ملنے والے ایک دوسرے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں کس قسم کے جذبات رکھتے ہیں، ہم ان کلمات کو سلام کہتے ہیں۔
سلام کی اقسام
برادران اسلام ! سلام کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دنیا کی ہر قوم ہر ملت میں سلام کا رواج ہے۔ سلام اظہارِ تعلق ومحبت کا ذریعہ ہے۔ سلام کے کلمات سے قوموں کی تہذیب کا اندازہ ہوتا ہے، اندازِ فکر کا پتہ چلتا ہے۔ آپ کسی بھی قوم کی تاریخ کامطالعہ کر لیجیے سلام منفرد انداز میں ملےگا، یونانیوں کا انداز کچھ اور ہوتا ہے، رومیوں کا انداز کچھ اور ہوتاہے، انگریز گڈ مارنگ گڈ آفٹر نون، گڈ نائٹ کہتے ہیں تو ہندو پَرنام، جے رام کہتے ہیں، کوئی سر جھکاتا ہے، کوئی ہاتھ پیشانی پر لیجاتا ہے۔
سلام کی ابتداء
اسی طرح اسلام سے قبل عربوں کا بھی اپنا ایک انداز تھا، وہ جب آپس میں ملتے تھے اَنْعِمْ صَبَاحاََ، اَنْعِمْ مَسَاءً، کہتے تھے جس کو اردو میں ہم ُصبح بَخیر، شَب بَخیر کہتے ہیں۔ مگر جب اسلام آیا تو اس نے انسانی زندگی میں انقلاب پیدا کیا، جاہلیت کی رسمیں بدل گئیں، افکار و نظریات اور عقائد بدل گئے۔
سلام کا حکم
اسی طرح اسلام نے سلام کا طریقہ بھی بدل دیا، انداز بھی بدل دیا، کلمات بھی بدل دئے اور حکم ہوا کہ جب آپس میں ملو تو بہترین انداز میں ملو، سلام کہو تو بہترین انداز سے کہو، اِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوْا بِأَحْسَنَ مِنْهَا سے سلام کے آداب بتلائے گئے ہیں کہ جب کوئی تم کو سلام کرے تو تم اس سے اچھے انداز میں سلام کرو یاکم ازکم ویسے ہی الفاظ دوہرا دو جیسا کہ سلام کرنے والے نے کہے ہیں۔
سلام کیا ہے
محبانِ اسلام ! سِلْم سلام سے مشتق ہے۔ سلامتی اس کا پیغام ہے۔ سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اَتَدْرِیْ ماالسَّلام، يَقُوْلُ اَنْتَ اٰمِن مِنّی، یعنی جانتے ہو کہ سلام کیا ہے؟ سلام کرنے والا کہتا ہے کہ تم مجھ سے مامون ہو، اس لئے مؤمن مسلم کی شان یہی بتلائی گئی ہے کہ اس کے قول و فعل، اس کے اعضاء وجوارح سے کسی کو ناحق تکلیف نہ پہونچے، وہ ہر حال میں سلامتی پسند ہوتا ہے۔ امن کا پیامبر ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ارشاد نبوی ہے،
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَ يَدِہِ وَالْمُؤْمِن مَنْ أَمِنَهُ النَّاس عَلىٰ اَمْوَالِهِمْ ودِمَاءِهِمْ (ترمذی شریف) یعنی مسلمان تو وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے سب مسلمان محفوظ ر ہیں۔ اور مومن تو وہی ہے جس سے تمام لوگ اپنے مال اور اپنی جان پر مامون رہیں۔
سلام کی اہمیت کیا ہے
بردران ملت ! جس مسلم کی یہ شان ہے تو اسکا سلام اس کی فطرت کا عکاس ہو گا۔ وہ اپنے بھائی سے ملتا ہے تو کہتا ہے السلام عليكم، کہ میں تم پر سلامتی بھیجتا ہوں، اس لئے سلامتی کا پیامبر ہوں، سلامتی پسند ہوں، سلامتی میری فطرت ہے، لہذا تم اپنی جان و مال پر، اپنی عزت و آبرو پر میری طرف سے مامون رہو تم کو میری ذات سے نقصان نہیں پہونچے گا۔
اسلام کا مقصد
حضرات ! اسلامی سلام صرف چند کلمات کے تبادلے کا نام نہیں بلکہ اسلام کی روح ان کلمات میں پنہاں ہوتی ہے، دنیا میں اسلام اسی لئے آیا ہے کہ ظلم وستم اور جور و جفا کی جگہ امن وسلامتی عام کرے، دلوں کو جوڑے، انسانیت کو سر بلند کرے، انسان اور انسان کے درمیان پیار و محبت، اخوت و مساوات کا رشتہ قائم کرے، نفرت و عداوت اور بغض و کینہ سے دلوں کو پاک کرے اور اس مقصد کے لئے اس نے بہت ہی آسان اور دل نشیں طریقہ اختیار کیا کہ سلام کو رواج دیا جائے۔
سلام کی اہمیت و فوائد
ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو اپنی طرف سے امن وسلامتی کا یقین دلائے، اس کے دل سے ہر قسم کے خوف و ہراس کو ختم کرے، اسی لئے اسلامی سلام کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔احادیث نبویہ میں سلام کی ترویج پر زور دیا گیا ہے۔
سلام کی احادیث
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ سب سے افضل عمل کیا ہے؟ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو کھانا کھلانا اور سلام کو رواج دینا، خواہ تم اس شخص کو پہچانتے ہو یانہیں پہچانتے، (بخاری و مسلم)
یعنی جس مسلمان کو دیکھو اس سے سلام کرو، دوسری روایت میں اس سے زیادہ اہم بات فرمائی گئی ہے، جیساکہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جنت میں اس وقت تک نہیں جا سکتے جب تک مؤمن نہ ہو جاؤ، اور تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہ ہو گا جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو اور میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو آپس میں محبت پیدا ہو جائیگی، وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو عام کرو ہر مسلمان کے لئے، خواہ تم اس کو پہچانتے ہو یانہیں پہچانتے (الحديث)
سلام کے فوائد
عزیزانِ ملت ! اس حدیث کی افادیت و معنویت پر غور فرمایئے کہ سلام کو محبت کا ذریعہ بتایا گیا ہے، سلام کی تاثیر بتائی گئی ہے کہ دلوں سے نفرت وکدورت کو نکال دیتا ہے، آپس میں محبت پیدا کر دیتا ہے اور محبت ہی تعلقات کی بنیاد ہے، محبت ہی اتحاد کی اساس ہے ، محبت ہی مساوات کی علمبردار ہے ، محبت ہی انسانیت کی پہچان ہے ، محبت ہی اسلام کی روح ہے، محبت ہی اصل الاصول ہے،
اسلام میں بھائی چارہ
اسلام محبت پیدا کرنے کے لئے آیا ہے، محبت کا پیغام لایا ہے، اللہ سے محبت کا درس دیتا ہے، رسول اللہ سے محبت کا درس دیتا ہے، انسانیت سے محبت کا درس دیتا ہے، ماں باپ بھائی بہن، دوست احباب، عزیز و اقارب سے محبت کا درس دیتا ہے، اگر اسلامی محبت دل میں گھر کرلے، اسلامی محبت ہماری طبیعت میں رَچ جائے تو تمام دشمنیاں ختم ہو جائیں، تمام عداوتیں ختم ہو جائیں، تمام نفرتیں ختم ہو جائیں، تمام کدورتیں دور ہو جائیں، تمام شکایتیں کافور ہو جائیں۔
محبت تو ایمان والوں کی پہچان بتائی گئی ہے۔ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا اَشَدُّ حُبّا لِلَّهِ، کہا گیا ہے ان محبت کرنے والوں کو قیامت کے روز عرش کے سایہ میں جگہ ملے گی، جس دن کوئی سایہ نہیں ہو گا سوائے خدا کے سایہ کے، عرش کے سایہ کے، اور آپس میں محبت کرنے والوں سے اللہ بھی محبت کرتا ہے، فرشتے بھی محبت کرتے ہیں، چرند و پرند بھی محبت کرتے ہیں،
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل اَلْحُبُّ لِلّٰهِ وَالْبُغْضُ فِي اللّٰهِ ہے۔
اسلام میں لڑائی جھگڑے کی مذمت
محبانِ اسلام ! دیکھئے اسلامی سلام کی تاثیر اور غور کیجئے آج کے حالات پر کہ مسلمانوں میں کتنا اختلاف ہے، کتنی دوریاں ہیں، جھگڑے ہیں، نفرتیں ہیں، عداوتیں ہیں، کدورتیں ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم آپس میں لڑرہے ہیں، کٹ رہے ہیں، مر رہے ہیں، اگر ہم اسلامی سلام کی تحریک بنالیں، مشن بنالیں تو یقین جانئے کہ سید ومرزا کے اختلافات ختم ہو جائیں گے، شیخ و افغان کے جھگڑے مٹ جائیں گے ، علاقائیت و قومیت کے لفڑے ختم ہو جائیں گے، نہ کانفرنس کی ضرورت ہوگی، نہ سیمینار کرنے کی حاجت ہوگی۔
صرف اتنا کرنا پڑے گا کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے بلا تفریق امیر و غریب، چھوٹے بڑے حکم و محکوم، دوست اجنبی، گورے کالے، سلام کرے، سلامتی کی دعائیں دے، امن کی دعائیں دے۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول تھا کہ روزانہ بازار اس لئے جایا کرتے تھے کہ جومسلمان ملے اس کو سلام کر کے عبادت کا ثواب حاصل کریں
صحابہ کرام کا تو یہ معمول تھا کہ اگر درخت یا دیوار یا اور کوئی چیز آڑ ہو جاتی اور پھر آمنے سامنے ہوتے تو آپس میں سلام کرتے تھے۔ اور سلام کی اسی کثرت نے ان کے دلوں میں ایک دوست کے لئے کتنی محبت پیدا کر دی تھی اس کا اندازہ اس آیت کریمہ سے کریں اَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ، کہ دشمنوں کے لئے بہت سخت تھے مگر آپس میں بڑے رحم دل تھے ، اسلامی سلام نے ان کے دلوں میں نرمی و لطافت پیدا کر دی تھی، الفت و محبت پیدا کردی تھی، اخوت و مودت پیدا کر دی تھی، اپنوں کے لئے پھول صفت بنا دیا تھا، باطل کے لئے تیغ فشاں بنا دیا تھا۔
سلام کو عام کرو
برادران اسلام ! سلام اللہ کے ناموں میں سے ہے جس کو اس نے زمین پر اتارا ہے، اس لئے اس کو عام کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس میں ثواب رکھا گیا ہے، محبت رکھی گئی ہے، سلامتی رکھی گئی ہے، سکون رکھا گیا ہے، برکت کھی گئی ہے، رحمت رکھی گئی ہے۔
سلام کرنے کے آداب
جب کوئی سلام کرے اور السلام علیکم کہے تو اسکو جواب دینا واجب ہے، اور بہتر جواب یہ ہے کہ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا جائے، اگر سلام کرنے والا السلام علیکم رحمۃ اللہ کہے تو اس کے جواب میں وبرکاتہ کا اضافہ کیا جائے۔ اور سلام کے آداب میں سے یہ ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے پیدل سوار کو سلام کرے تنہا جماعت کو سلام کرے۔
عزیزان ملت ! یہ سلام جنتیوں کا سلام ہے۔ اسلام دنیا میں جنت کے سلام کی مشق کرا دیتا ہے، جنت میں داخل ہوتے وقت رضوان کہیگا سَلاَمٌ عَلَيْكُمُ طِبْةٌ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِيْن۔ اور جنت میں تو ہر طرف سَلَاماََ سَلَاماََ کی گونج ہوگی، مگر ہم نے اہم ترین سنت کو ترک کر دیا ہے، غیروں کا طریقہ اپنا لیا ہے، گڈ مارننگ کہتے ہیں، ہیلو ہیلو کہتے ہیں، آداب عرض کہتے ہیں، گڈ بائی کہتے ہیں، اور اسلامی سلام کی توفیق نہیں ہوتی،
اگر سلام کرتے بھی ہیں تو جان پہچان والوں سے، وہ بھی کسی فائدہ کے پیش نظر، کسی خوف کے تحت، ایسا سلام مطلب پرستی کا سلام ہوتا ہے، خود غرضی کا سلام ہوتا ہے، ریا کاری کا سلام ہوتا ہے، دکھاوے کا سلام ہوتا ہے۔ اسلامی محبت سے سرشار ہو کر سلام نہیں کرتے، دینی اخوت کے تحت سلام نہیں کرتے، عہدوں کے اعتبار سے سلام ہوتا ہے، دولت کے اعتبار سے سلام ہوتا ہے، مطلب کے لحاظ سے سلام ہوتا ہے۔آج ہم نے سلام کی محبت کو بھی دنیاوی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنالیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے سلام سے محبت نہیں پیدا ہوتی، تعلق نہیں پیدا ہوتا، ہمدردی نہیں پیدا ہوئی۔
سلام پیش کرنے کا طریقہ
تو آئیے ہم اسلامی سلام کی رواج کو زندہ کریں، اسلامی شان سے سلام کریں، دینی محبت کے ساتھ سلام کریں، دل کی گہرائی سے سلام کریں اور شرور وفتن، خلفشار وانتشار کے اس دور میں اسلامی سلام کو رواج دیں، سلامتی کے پیغام کو عام کریں، محبت کے پیغام کو عام کریں، ان کے پیغام کو عام کریں، دلوں سے کدورت کو دور کریں، نفرت کو دور کریں، وحشت کو دور کریں، دہشت کو دور کریں، عداوت کو دور کریں اور کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰهِ إِخْوَانًا کا ثبوت پیش کریں، وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ۔